کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 82
اللیل بھی ہے اور تہجد بھی ہے۔ (2) دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ کوئی نام نہاد ''محدث شہیر'' تو کیا پوری دنیائے حنفیت مل کر بھی کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ ان تینوں راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے علاوہ تہجد بھی ادا فرمایا تھا،اسی طرح جن صحابہ نے اس جماعت میں شرکت کی تھی ان کے متعلق بھی کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا کہ انہوں نے اس جماعت کے علاوہ تہجد بھی پڑھا تھا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے حضرات صحابہ کی وہ نماز تراویح ہی تہجد تھی۔ پہلا استدال قول نبوی سے ہے اور دوسرا استدلال فعل نبوی اورتقریر نبوی سے ہے۔ (3) تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی بات کے قائل تھے۔جیسا کہ علماء دیوبند میں ایک بہت بڑے ممتاز عالم مولانا انور شاہ کشمیری کا بیان ہے: ویؤیدہ فعل عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فانہ کان یصلی التراویح فی بیتہ فی آخر اللیل مع انہ کان امرہم ان یؤیدوہا بالجماعة فی المسجد ومع ذلک لم یکن یدخل فیہا وذالک لانہ کان یعلم ان عمل النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کان بادائہا فی آخر اللیل ثم نبہہم علیہ قال انہ الصلوٰة التی تقومون بہا اول اللیل مفضولة منہا لوکنتم تقیمونہا فی آخر اللیل فجعل الصلوة واحدة وفضل قیامہا فی آخر اللیل علی القیام بہا فی اول اللیل وعامتہم لہا لم یدرکوا مرادہ جعلوہ دلیلا علی تغایر الصلاتین وزعموا انہما کانتا صلاتین انتہیٰ(فیض الباری جلد ثانی ص420)