کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 77
ج:اہل حدیث کے نزدیک کسی حدیث یا سنت کے اخذ و ترک کا معیار یہ نہیں ہے کہ فلاں امام نے اس کو اخذ کیا یا ترک کیا ہے۔وہ تو ہر وہ حدیث یا سنت جو باصول محدثین صحیح ثابت ہو جائے سر اور آنکھوں پر رکھتے ہیں۔اس لئے تعداد رکعات کی بابت جب گیارہ یا تیرہ سے زیادہ کا ثبوت قول یا فعل نبوی سے نہیں ملا تو اس کو ''سنت'' نہیں سمجھا اور کیفیتِ ادا کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف صورتیں ثابت ہیں۔اس لئے ان سب صورتوں کو سنت اور قابل عمل قرار دیا ہے
اگر دوسرے بھی تقلیدی جمود سے نکل کر انصاف و دیانت کی رو سے یہ تسلیم کر لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ رکعات تراویح ثابت ہے اور یہ بھی سنت ہے تو آج ساری نزاع ختم ہو جائے۔اس حدیث سے دوسروں پر حجت اس لئے قائم ہو جاتی ہے کہ وہ اس ''سنت'' کو مٹانے کے درپے ہیں وہ صرف اس سنت کے تارک ہی نہیں بلکہ منکر اور جامد ہیں۔اس لئے اہل حدیث جنہوں نے احیائے سنت ہی کو اپنا مشن قرار دیا ہے۔اس دھاندلی کو کس طرح برداشت کر سکتے ہیں۔
قولہ: اور اگر ہماری اس گرفت سے گبھرا کر اہل حدیث یہ کہنے لگیں کہ اس حدیث میں دوامی کیفیت کا بیان نہیں ہے تو گذارش ہے کہ دوامی نہیں تو اکثری تو ہے اوراہل حدیث کا عمل اکثر اوقات میں بھی اس کے مطابق نہیں ہے۔بلکہ اس کے خلاف ہے۔(ص 11)
ج: اجی حضرت!آپ جیسوں کی ''گرفت '' سے گبھرانا؟جو بقول امام السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث کے معاملے میں '' اناڑی '' ہیں۔امام محمد بن نصرمروزی کا بیان ہے:
حدثنی علی بن سعید النسوی قال سمعت احمد بن حنبل