کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 76
ھے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشة زوج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قالت کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلی ما بین ان یفرغ من صلوة العشاء وھی التی یدعون الناس العتمة الی الفجر احدی عشرة رکعة یسلم بین کل رکعتین ویوتر بواحدة الحدیث(مسلم شریف جلد اول ص 254) اس کے علاوہ دوسر ی صورتیں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ سے صحیح احادیث میں مروی ہیں،مگر تعداد کے متعلق کسی صحیح روایت میں نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھا ہو۔ اسی طرح وتر اہل حدیث ایک رکعت بھی پڑھتے ہیں اور تین رکعات بھی اور جب تین رکعات پڑھتے ہیں تو کبھی دو سلام سے اور کبھی ایک سلام اور ایک تشہد سے۔کیونکہ یہ سب صورتیں صحیح اور مرفوع روایات سے ثابت ہیں۔حدیث کا ایک ادنی طالب علم بھی ان باتوں کو جانتا ہے،مگر حیرت ہے کہ ''محدث شہیر'' کی اس ناواقفیت یا تجاہل پر۔ ان کنت لا تدری فتلک مصیبة وان کنت تدری فالمصیبة اعظم قولہ:اس سے معلوم ہو ا کہ خود اہل حدیث کے ہی نزدیک یہ حدیث لازم العمل نہیں۔نہ اس کی خلاف ورزی سنت کی خلاف ورزی ہے۔ایسی حالت میں دوسروں پر اس سے حجت قائم کرنا یا کسی دعویٰ کے ثبوت میں اس کو پیش کرنا بالکل خلاف انصاف و دیانت ہے(رکعات ص 22)