کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 75
کہا ہے،لیکن اس کیفیت کے ''دائمی معمول'' ہونے کو حدیث کا ظاہر مدلول نہیں کہا ہے۔اس لئے تحفة الاحوذی کا حوالہ اس موقع پر پیش کرنا آپ کی نادانی ہے یا تجاہل۔ قولہ:لہذا اہل حدیث کو لازم تھا کہ وہ کبھی گیارہ رکعت سے کم تراویح نہ پڑھتے اور ہمیشہ چار چار رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ہمیشہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑتھے،مگر اہل حدیث ایسا نہیں کرتے بلکہ عموماً نو رکعتیں پڑھتے ہیں اور اگر کوئی تین پڑھ بھی لیتا ہے تو دو سلام سے۔(ص 22) ج:مولانا نے حدیث کسی اہل حدیث سے پڑھی ہوتی تو یہ مظالطہ نہ کھاتے ہم نے بتا دیا کہ اس حدیث میں گیارہ سے کم پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ حدیث گذر چکی۔لہذا یہ سنت کے خلاف نہیں ہے۔اسی طرح ادا کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اگر حضرت عائشہ نے فرما دیا ہوتا کہ اس کیفیت کے خلاف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں پڑھتے تھے،جیسا کہ تعداد کی بابت انہوں نے تصریح کر دی کہ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔تو بلا شبہ اہل حدیث اس کیفیت کو بھی جرزجاں بناتے اور نفل ہونے کے اعتبار سے اگر اس کو ''لازم العمل'' نہیں تو افضل اور احسن تو ضرور سمجھتے۔تاہم سنت تو بحمد للہ اب بھی سمجھتے ہیں۔بعض علماء احناف کی طرح اس کا انکار نہیں کرتے۔جیسا کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا ہے لان الاربع ھذہ لم تکن بسلام واحد(فیض الباری ج 2 ص 421) لیکن ہمیشہ اسی کیفیت کے ساتھ اس لئے نہیں پڑھتے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں کبھی اس طرح بھی پڑھی ہیں کہ دو دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور پھر وتر ایک رکعت پڑھتے ت