کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 74
تھے،تو دوسرے فقرے سے جس میں پہلے ہی فقرے کی توضیح و تشریح کی گئی ہے،یہ ثآبت ہوا کہ آپ کا دائمی معمول گیارہ پڑھنے کا اس طرح تھا کہ پہلے چار چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے،پھر وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے۔(رکعات 21) ج:سخن فہمی عالم بالا معلوم شد۔اجی حضرت!پہلے فقرے میں تو یہ صراحت ہے:ما کان یزید …… علی احدی عشرة رکعة(گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے)لیکن کیا دوسرے فقرے میں بھی اس قسم کی کوئی صراحت ہے کہ ادائے رکعات کی یہ کیفیت دائمی تھی؟اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اس کیفیت کا دوام کیسے لازم آیا۔اگر رکعات کی تعداد گیارہ سے زیادہ نہ رہی ہو،لیکن ادا کی کیفیت کبھی یہ رہی ہو کہ چار چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھی ہوں اور کبھی یہ رہی ہو کہ دو دو رکعتوں پر سلام پھیرا ہو۔اسی طرح کبھی وتر کی تین رکعتیں ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھی ہوں اور کبھی دو سلام سے تو پہلے فقرے اور دوسرے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان کیا منافات ہے لازم آگئی ہے۔اسی واسطے محدثین نے دوسرے فقرے کوان دونوں صورتوں کا محتمل بنایا ہے۔قرب اور بعد کا فرق ہو سکتا ہے۔خطا اور صواب کا نہیں۔نیز خود حضرت عائشہ ہی کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت دائمی نہ تھی۔کما سیاقی عنقریب تحفة الاحوذی میں مولانا مبارک پوری نے جو لکھا ہے۔یہی مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی لکھا ہے: الظاہر انھا سلام واحد و یحتم کونھا بتسلیمتین(فتح الملہم جلد ثانی ص 291) مولانا مبارک پوری نے ایک سلام سے پڑھنے کو حدیث کا ظاہر مدلول