کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 73
ج:حیرت ہے کہ جس مضمون کو حدیث کا ایک مبتدی طالب علم سمجھ سکتا ہے،اس کو ایک ''محدث'' سمجھنے سے قاصر ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات بھی پڑھتے تھے اور نو بھی اور گیارہ بھی۔ عن مسروق قال سئالت عائشة عن صلوٰة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم باللیل فقالت سبع و تسع واحدی عشرة سوی رکعتی الفجر(بخاری شریف ص 1/153) آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی عمل کو سامنے رکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا گیارہ سے ''زیادہ'' مثلاً بیس،تیس،چھتیس وغیرہ کی نفی کر رہی ہیں۔گیارہ سے کم کی نہیں،مگر ہمارے ''محدث ِ شہیر'' فرماتے ہیں نہ سات،نہ نو،بلکہ صرف گیارہ۔ ع ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ گیارہ سے ''زیادہ'' کی نفی سے گیارہ،سات،نو اور تینوں صورتوں کی نفی نہیں بلکہ ان کو برقرار رکھنا مقصود ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دوسرے فقرے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان رکعات کے ادا کرنے کی جو کیفیت بیان کی ہے،وہ ان تینوں اعداد میں سے صرف ایک عدد کی ہے۔یعنی گیارہ کی،کیونکہ ان اعداد میں زیادہ عمل گیارہ ہی پر تھا۔سات اور نو رکعات کے ادا کرنے کی کیفیت اس موقع پر نہیں بتائی۔اس موقع پر تحفتہ الاحوذی کا حوالہ بالکل بے محل ہے۔جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ قولہ:اس تمہید کے بعد اب ہماری گذارش یہ ہے کہ جب حدیث کے پہلے فقرے سے اہل حدیث کے خیال میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول یہ ثابت ہو گا کہ آپ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے