کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 71
حدیث جب یہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے بسند صحیح مع وتر گیارہ رکعات سے زیادہ ثابت نہیں … تو اس ''زیادہ'' سے ان کی مراد مطلق زیادتی کی نفی نہیں ہے بلکہ وہ زیادتی جو اس وقت عام طور پر معہود اور متعارف ہے جس کی بابت جھگڑا اور چرچا ہے یعنی بیس رکعات۔ لہذا جب تک بیس رکعات کا ثبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے نہیں ہو گا،اہل حدیث کا دعویٰ باطل نہیں ہوگا۔تیرہ رکعات کا ثبوت اہل حدیث کے مدعا کے منافی نہیں ہے،بلکہ یہ حصر حقیقی نہیں اضافی ہے اور مضاف الیہ ایک خاص اور معہود امر ہے اور وہ ہے بیس رکعات۔ قولہ:اور جب کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں باقرار اہل حدیث رمضان و غیر رمضان کی تمام راتوں کا حال مذکور نہیں،بلکہ بعض یا اکثر کا تو اہل حدیث کا اپنے مدعا کے ثبوت میں اس کو پیش کرنا نادانی اور تجاہل ہے(رکعات ص 30) ج:اہل حدیث کا یہ اقرار گیارہ سے کم اعداد(7 یا 9)کے اعتبار سے ہے جو صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں۔11 یا 13 سے ''زیادہ'' کے اعتبار سے تو حدیث عائشہ میں تمام راتوں کا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔اگر آپ اتنی سی بات نہ سمجھیں یا سمجھ کر بے سمجھ بنیں تو یہ آپ کی نادانی یا تجاہل ہے اہلحدیث کی نہیں۔ قولہ:نیز جب اس حدیث میں تمام راتوں کا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اکثر راتوں کا حال مذکورہے تو اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ بعض راتوں میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ بھی پڑھی ہیں اور اس کے ثبوت میں کوئی حدیث بیان کرے تو اس حدیث کو حدیث عائشہ کے معارض و مخالف قرار دینا سخت بھول اور غفلت پر مبنی ہے۔