کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 70
اس کو نمایاں کیا گیا ہے اور دوسری توجیہہ موقع کے لحاظ سے خواہ کتنی ہی اقرب اور انسب سہی مگر اپنے ''مطلب'' کی نہیں،بلکہ فی الجملہ مضر ہے۔اس لئے مولانا مئوی نے اس کو چھپانا ہی بہتر سمجھا۔ خیر اب ہمارا دوسرا جواب سنیئے!لیکن اس جواب سے پہلے اعتراض اور اس کے پچھلے جواب کا خلاصہ پھر سمجھ لیجئے: مولانا مئوی کے اعتراض کا منشاء یہ ہے کہ ''اہل حدیث کا یہ دعویٰ گیارہ رکعات پر حصر کا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ رکعت پڑھنا بھی ثابت ہے۔لہذا گیارہ رکعات پر حصر کا دعویٰ باطل ہو گیا ''۔ اس کے جواب میں اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ''حصر'' کا دعویٰ اہلحدیث کا نہیں بلکہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا ہے۔لہذا اس ہدیث میں اپنے زعم کے مطابق صرف تہجد مراد لیجئے،یا اہل حدیث کے قول کے مطابق تہجد اور تراویح دونوں مراد لیجئے،بہر حال اعتراض مشترک ہے،پس جو جواب تہجد کے ''حصر'' کی بابت آپ کا ہے وہی جواب تراویح کی بابت ہمارا ہے اور وہ حافظ ابن حجر اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے بیان کے مطابق یہی ہے کہ یہ ''حصر'' مطلقاً نہیں بلکہ لمبی لمبی رکعتوں کے اعتبار سے ہے۔گویا بالفاظ دیگر یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ یہ حصر گیارہ سے ''زیادہ'' کے اعتبار سے کم کے اعتبار سے نہیں ہے۔ اسی کی روشنی میں ہم دوسرا جواب یہ عرض کرتے ہیں کہ اہل حدیث کا یہ دعوی یا بقول آپ کے ''شور و غوغا'' ان ضدی اور متعصب حنفیوں کے مقابلے میں ہے جو اس تعداد کے ''سنت'' ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بجائے صرف بیس رکعات کے مسنون اور قابل عمل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹے ہیں۔گویا اہل