کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 69
اوقات متعددة واحوال مختلفة بحسب النشاط وبیان الجواز واللّٰه اعلم انتھی(فتح الباری ص 16 ص 3)۔ اسی توجیہہ کو مولانا مئوی نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔حالانکہ یہ توجیہہ بحث کے بالکل آخر میں ہے اور ایک دوسرے مبحث کے ضمن میں ہے۔اور 7،9،11،13 ان سب اعداد کے اعتبار سے ہے۔اور وہ اصل توجیہہ جو شروع میں ہے اور جو خود حافظ ابن حجر کی نظر میں ہے اور خاص اس حدیث کے متعلق ہے جو اس وقت نزاعی یعنی حدیث ابوسلمہ عن عائشہ اس کو علامہ مئوی نے چھوڑ دیا ہے۔حالانکہ موقع کے لحاظ سے اسی کا یہاں ذکر کرنا زیادہ مناسب تھا لیکن چونکہ تحقیقِ حق مقصود نہیں ہے،بلکہ حمایت مذہب پیش نظر ہے اس لئے مولانا کی دوربیں نگاہوں نے مصلحت نہیں سمجھا کہ حلقہء ارادت کے عوام کو اس توجیہہ سے روشناس کیا جائے کیونکہ اعتراض کے پوری طرح دفعیہ کے ساتھ ساتھ اس توجیہ کے ضمن میں حافظ ابن حجر کے یہ الفاظ لان روایة ابی سلمة التی دلت علی الحصر فی احدی عشرة کھلے طور اہل حدیث کے مذہب کی تائید کر رہے ہیں اور مولانا جیسا متعصب حنفی عالم یہ کب گوارا کر سکتا تھا کہ حق کی آواز حنفی عوام کے کانوں میں بھی گونجے اور وہ بھی ان کے قلم سے۔ نیز اس توجیہہ سے اغماض کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسے صرف گیارہ اور تیرہ والی روایتوں کا اختلاف دور ہوتا ہے۔دوسرے قسم کے اختلافات پر یہ توجیہہ منطبق نہیں ہو سکتی اور مولانا کو فکر یہ ہے کہ اس موقع پر جب کہ اختلاف روایات کے بین تطبیق پر گفتگو ہو رہی ہے۔کلامِ محدثین میں کوئی ایسی گنجائش نکال رکھی جائے جو بیس والی ضعیف روایت پر بحث کے سلسلے میں کام آ سکے ''یہ مطلب'' صرف آخری ہی توجیہہ سے بظاہر پورا ہوتا نظر آتا ہے۔اس لئے