کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 68
اعلم ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یفتتح صلوٰتہ باللیل برکعتین خفیفتین وھما من مبادی التھجد ثم یصلی ثمان رکعات وھی اصل التہجد ثم یوتر بثلاث رکعات الخ(فتح الملہم جلد ثانی ص 288) پھر حضرت ابن عباس کی شرح کے ذیل میں لکھتے ہیں: فالحاصل ان صلوة صلی اللّٰه علیہ وسلم باللیل کان ثلاث عشرة رکعة مع الرکعتین الخفیفتین اللتین کانتا من مبادی التہجد واحدی عشرة رکعة بدونھا فاصل التہجد منھا ثمان رکعات والوتر ثلاث وھذا العدد یوافق ما تقدم عن عائشة رضی اللّٰه عنھا وللّٰه الحمد انتھی(فتح الملہم جلد ثانی ص 327) مولانا عثمانی نے اگرچہ یہ بات تہجد کے متعلق کہی ہے،مگر یہاں تراویح کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کر دیا۔ حافظ ابن حجر نے مذکور بالا دونوں توجیہیں بیان کرنے کے بعد ایک سوال اٹھایا ہے کہ وتر کے بعد جن دو رکعتوں کا ذکر بعض حدیثوں میں ہے،آیا یہ کوئی مستقل نماز ہے یا اس سے فجر کی سنت مراد ہے؟شق اول کی تائید میں احمد و ابوداؤد کے حوالے سے حضرت عائشہ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع وتر 7۔9۔11۔13 رکعتیں پڑھتے تھے۔اس کے بعد بعض علماء کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ صلوٰة اللیل کی بابت حضرت عائشہ کی روایات میں اضطراب ہے۔اسی قول کی تردید کرتے ہوئے حافظ نے کہا ہے: وھذا انما یتم لو کان الراوی عنھا واحداً واخبرت عن وقت واحد والصواب ان کل شٔ ذکرتہ من ذلک محمول علی