کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 67
التی دلت علی الحصر فی احدی عشرة جاء فی صفتھا عند المصنف وغیرہ یصلی اربعاً ثم اربعاً ثم ثلاثاً فدل علی انھا لم تتعرض للرکعتین الخفیفتین وتعرضت لھما فی روایة الزھری والزیادة من الحافظ مقبولة وبھذا یجمع بین الروایات انتھی(فتح الباری باب کیف صلوة اللیل وکم کان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلی باللیل) اس عبارت کا ما حصل یہ ہے کہ جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے۔ہو سکتا ہے کہ حضرت عائسہ رضی اللہ عنہا نے اس میں عشاء کی سنت کو بھی صلوة اللیل میں شمار کیا ہو۔کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی گھر ہی میں پڑھا کرتے تھے۔یا یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰة اللیل کا افتتاح رکعتین خففتین سے فرمایا کرتے تھے۔اس لئے ابوسلمہ عن عائشہ کی جس روایت میں گیا رہ رکعتوں کا حصر ہے،اس میں رکعتین خفیفتین کے علاوہ لمبی لمبی رکعتیں مراد ہیں۔جیسا کہ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے:یصلی اربعاً فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعاً الخ اور جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے اس میں ان دونوں ہلکی اور افتتاحی رکعتوں کو بھی ملا لیا گیا ہے۔اس طرح ان دونوں روایتوں میں بلا تکلف تطبیق ہو جاتی ہے۔اس توجیہہ کی بابت حافظ ابن حجر نے لکھا ہے وھذا ارجح فی نظری(میری نظر میں یہی راجح ہے)۔گویا تہجد اور تراویح کی اصل رکعات آٹھ ہی ہیں۔دو خفیف رکعتیں مبادی سے ہیں۔ان کو شمار کیا جائے تو تیرہ رکعت ہوں گی۔ورنہ گیارہ۔چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں: قلت والذی یظھر للعبد الضعیف من مجموع الروایات واللّٰه