کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 66
مقام میں مدلل حاشیہ لکھا ہے اور تحفة الاحوذی میں بھی اس کا جواب دیا گیا ہے،مگر مولانا مئوی اس کے ذکر سے بالکل خاموش ہیں۔اس لئے کہ بات معقول ہے۔مولانا نے سوچا عافیت اسی میں ہے کہ نگاہیں بچا کر نکل چلو۔ زاہد ندا شت تاب وصال پر رخاں کنجے گرفت و ترس خدا را بہانہ ساخت بہر حال پہلے ہم حافظ عبداللہ صاحب اور تحفة الاحوذی کے جواب کو ذرا وضاحت سے پیش کرتے ہیں اس کے بعد ایک دوسرا جواب خود عرض کریں گے اس سلسلہ میں ایک بات ملحوظ خاطر ر ہے کہ حدیث عائشہ(زیر بحث)میں لیالی رمضان اور لیالی غیر رمضان دونوں کی نمازوں کے بارے میں گیارہ رکعت سے زیادہ ہونے کی نفی کی گئی ہے۔لہذا تیرہ رکعت والی روایت سے جو اعتراض کے حصر پر وارد ہوتا ہے وہی اعتراض تہجد پر بھی ہوتا ہے۔اس لئے جو جواب تہجد کی بابت دیا گیا ہے،وہی جواب تراویح کی بابت بھی ہو گا۔ اس تمہید کے بعد گذارش یہ ہے کہ حافظ عبداللہ صاحب نے رکعات التراویح کے حاشیہ میں اور مولانا مبارک پوری نے تحفة الاحوذی میں جواب دیا ہے۔یہ جواب دراصل حافظ ابن حجر کے کلام سے ماخوذ ہے۔حافظ ابن حجر نے گیارہ اور تیرہ والی روایتوں کے درمیان تطبیق و توجیہہ کی۔پہلے یہ دو صورتیں ذکر کی ہیں فیحتمل ان تکون اضافت الی صلوة اللیل سنة العشاء لکونہ کان یصلیھا فی بیتہ او ما کان یفتتح بہ صلاة اللیل فقد ثبت عند مسلم من طریق سعد بن ھشام عنہا انہ کان یفتتحھا برکعتین خفیفتین وھذا ارجح فی نظری لان روایة ابی سلمة