کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 65
لطائفِ قاسمیہ میں ہے: ''وتحدید رکعات آں نہ فرمودہ کہ کمی و زیادة دراں روا نبا شد۔چنانکہ در فرائض و رواتب سنن ست ''۔ص 14۔ ان حضرات کی عبارتوں پر پھر غور کیجئے۔ہم نے بار ہا آپ کو بتایا ہے کہ انہوں نے حصر و تحدید کی نفی کی ہے۔فعل نبوی سے ثبوت کی نہیں۔لہذا ان کے کلام میں ہرگز کوئی تناقض نہیں۔ تنبیہ:اس موقع پر ہم اپنے قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ذرا تکلیف کر کے ایک مرتبہ پھر علماء حنفیہ کی ان شہادتوں کو پڑھ لیں جو پچھلے صفحات میں پیش کی گئی ہیں اور اندازہ لگائیں کہ احناف کے کیسے کیسے اکابراس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ حدیث عائشہ میں تراویح کا بھی بیان ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کسی حدیث کے معنی و مدلول کے سمجھنے کا سلیقہ احناف میں سید الاحناف امام محمد اور علامہ ابن ہمام،ابن نجیم،طحطاوی،زیلعی وغیرہم کو زیادہ حاصل ہے؟یا مولانا حبیب الرحمن اعظمی کو؟۔ قولہ:ثانیا اگر بالفرض اس حدیث کا تعلق تراویح ہی سے ہو تو بھی اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ تراویح نہیں پڑھی۔اس لئے کہ حضرت عائشہ نے ایک دوسری صحیح روایت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت پڑھتے تھے … تو اہلحدیث کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مع وتر گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ثابت نہیں۔جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب نے رکعات التراویح میں لکھا ہے کہ باطل ہو گیا۔(ص 19) ج:اسی شبہ کے دفع کرنے کے لئے حضرت حافظ صاحب مرحوم نے اس