کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 64
عائشہ رضی اللہ عنہامیں تراویح کا بھی بیان ہے۔اب رہا یہ خیال کہ اگر ہے تو ان کے نزدیک اس حدیث کا یہ مطلب نہیں۔الخ۔ تو اس کی بابت عرض ہے کہ ''سنت'' اور ''خلاف سنت'' کی جو مراد ہم نے اوپر بیان کی اس کے لحاظ سے یقینا اس حدیث کا مطلب ان کے نزدیک بھی یہی ہو گا کہ جو عدد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے وہ خلاف سنت ہے۔ہاں جس عدد کا پڑھنا ایک دفعہ بھی ثابت ہووہ بے شک سنت ہے۔کیونکہ بقول مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ''تسنن کے واسطے ایک دفعہ کا فعل بھی کافی ہے''۔(الرای النجیح ص 16)۔ مگر جس عدد کا پڑھنا ایک دفعہ بھی بسند صحیح ثابت نہ ہو جیسے بیس رکعات تو اس کو کیسے فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم(سنت)کہا جائیگا؟۔ اسی لئے امام ابن تیمیہ نے صرف 11 یا 13 کو فعل نبوی بتایا ہے۔بیس کی مرفوع روایت کو تو انہوں نے قابل ذکر بھی نہیں سمجھا۔بعد میں تعداد رکعات میں جو اضافہ ہوا ہے اس کو وہ طولِ قیام کا عوض کہ رہے ہیں۔گویا ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی امر ہے۔فعل نبوی سے ثابت نہیں۔امام شوکانی نے بھی ''عدد ثابت '' گیارہ ہی کو بتایا ہے۔بیس کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔لہذا ان حضرات کے نزدیک محقق امر یہی ہے کہ بیس یا اس سے زیادہ رکعات خلافِ سنت ہیں۔یعنی فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔ اور یہ ان کی کہی ہوئی بات کے ہرگز خلاف نہیں۔کیونکہ ''خلاف سنت'' سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ ''عدد ثابت'' فرض نماز کی رکعات کی طرح متعین اور محدود ہے۔لا یزاد علیہ ولا ینقص یہ نفلی نماز ہے اس لئے فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عدد خاص کے ثبوت کے باوجود اس میں کمی زیادتی ہو سکتی ہے جیسا کہ