کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 63
ابن تیمیہ ص 148 ج 1) اس عبارت میں اگرچہ حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا کا نام نہیں آیا ہے،مگر فن حدیث کا ذوق رکھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ گیارہ اور تیرہ رکعات سے اشارہ انہی کی حدیث کی طرف ہے۔غور کیجئے۔شروع سے آخر تک تراویح کا بیان ہے اور اسی سلسلہ میں 11 یا 13 رکعات کا ذکر فعل نبوی کی نسبت کے ساتھ آیا ہے۔ابن تیمیہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عہد فاروقی وغیرہ میں جو عدد رکعات کا اضافہ ہوا ہے یہ طول قیام کے عوض میں ہے۔کیا یہ سب باتیں تراویح کے متعلق نہیں ہیں؟پھر یہ کہنا کیسی غفلت اور نا واقفیت کی بات ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک حدیثِ عائشہ میں تراویح کا بیان نہیں ہے۔ اسی طرح امام شوکانی لکھتے ہیں: واما العدد الثآبت عنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فی صلوتہ فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشة الی ان قال واخرج البیھقی عن ابن عباس کان یصلی فی شھر رمضان فی غیر جماعة عشرین رکعة والوتر زاد سلیم الرازی فی کتاب الترغیب لہ ویوتر بثلاث قال البیھقی تفرد بہ ابوشیبة ابراھیم بن عثمان وھو ضعیف انتھی۔(نیل الاوطار مع العون صفحہ 299 ج 2) بتائیے!اگر علامہ شوکانی کے نزدیک حدیث عائشہ میں تراویح کا بیان نہیں ہے تو اما لعدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں سب سے پہلے حدیث عائشہ اور اس کے بعد حدیث ابو شیبہ کا حوالہ دینے کا کیا مطلب ہے؟کیا عقلاء کے کلام میں ایسی ہی بے ربط اور بے جوڑ باتیں ہوا کرتی ہیں؟۔ پس اس میں تو شبہ ہی نہیں ہے کہ ان حضرات کے نزدیک حدیث