کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 61
قولہ:اور اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن تیمیہ اور علامہ شوکانی وغیرہما کی تصریح آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ تراویح کا کوئی عدد معین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے(رکعات صفحہ 19)۔ ج:وہیں ہم نے آپ کے اس فریب کی قلعی بھی کھول دی ہے اور بتا دیا ہے کہ ان علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تراویح کا عدد معین ثابت ہے۔اور وہ ہے آٹھ رکعت بلاوتر اور گیارہ رکعت مع وتر۔مگر چونکہ یہ نفلی نماز ہے اس لئے اس عددِ خاص میں حصر نہیں ہے۔ قولہ:اورتراویح کو کسی خاص عدد میں منحصر کرنا(مثلاً یہ کہنا کہ تراویح کی گیارہ ہی رکعتیں سنت ہیں یا تیرہ ہی رکعتیں سنت ہیں اور تیرہ یا گیاہ پر زیادتی خلافِ سنت ہے)ابن تیمیہ کے الفاظ میں خطا ہے اور شوکانی کے الفاظ میں ایسی بات ہے جس کا ثبوت کسی حدیث میں نہیں ملتا۔(رکعات ص 11) ج:ان رکعتو ں کو ''سنت'' اور ان پر زیادتی کو ''خلاف سنت'' کہنے سے ہماری مراد کیا ہے؟پہلے اس کو سمجھ لیجئے۔ سنت کہنے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یہ رکعات ثابت ہیں۔اور ''خلاف سنت'' سے مراد یہ ہے کہ اس سے زیادہ فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔''خلاف سنت'' سے مراد عدم جواز نہیں ہے۔ سنت کی یہ مراد ابنِ تیمیہ اور شوکانی وغیرہماکو خود تسلیم ہے۔یعنی وہ مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ یا تیرہ رکعات ثابت ہیں۔جیسا کہ ان کی کتابوں کے ہوالے سے پہلے گذر چکا ہے۔اس لئے نہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں خطا ہے اور نہ شوکانی کے الفاظ میں۔یہ ایسی بات ہے جس کا ثبوت حدیث میں نہیں