کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 60
حدیث عائشہ کا تعلق تراویح سے نہیں ہے تو یہ آپ کی بہت بڑی غفلت اور بھول ہے۔حافظ ابن حجرہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہی حافظ ابن حجر ہیں جنہوں نے حضرت ابن عباس کی اس حدیث کو جو بروایت ابوشیبہ بیس رکعات تراویح کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے،دو وجہوں سے مجروح قرار دیا ہے۔ایک تو یہ کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں اور دوسری یہ کہ حدیث عائشہ(زیر بحث)اس کی معارض حافظ ابن حجر کے الفاظ میں: واما مارواہ ابن ابی شیبة من حدیث ابن عباس کان رسول اللّٰه یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر فاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشة ھذا الذی فی الصحیحن مع کونھا اعلم بحال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم من غیرھا انتھی(فتح الباری ص 205 و صفحہ 206 طبع مصر) بتائیے اگر حدیث عائشہ کا تعلق تراویح سے نہیں ہے تو یہ حدیث ابوشیبہ کی معارض کیسے ہو گی۔جیسا کہ آپ نے خود بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ملاحظہ ہو رکعات تراویح صفحہ 62۔63۔ اب حافظ ابن حجر کی ان دونوں تقریروں کو(ایک وہ جس کو آپ نے نقل کیا ہے اور دوسری وہ جس کو ہم نے پیش کیا ہے)ملا کر غور کیجئے۔نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ حافظ ابن حجر کی تحقیق میں حدیث عائشہ کا تعلق تہجد سے بھی ہے اور تراویح سے بھی۔ یہی اہل حدیث بھی کہتے ہیں۔پھر حافظ ابن حجر کی اس تقریر سے آپ کو کیا فائدہ پہنچا۔؟ ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ