کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 59
جو یہ کہا ہے کہ: سمیت الصلوٰة فی الجماعة فی لیالی رمضان التراویح (یعنی جو نماز جماعت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں پڑھی جاتی ہے اس کا نام تراویح ہے)تو یہ ہدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مدلول و مفہوم کے منافی نہیں ہے۔کیونکہ حدیث عائشہ کا مدلول عام ہے۔وہ رمضان اور غیر رمضان،جماعت اور فرادی،سب صورتوں کو شامل ہے۔یعنی حدیث عائشہ کے مدلولِ عام کا تراویح ایک فرد خاص ہے۔پس دونوں کا تعلق ظاہر ہے کون عاقل کہہ سکتا ہے کہ عام اور اس کے فرد خاص میں تعلق نہیں ہوتا؟۔ قولہ:اس بات کی تائید کہ اس حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں ہے۔اس سے بھی ہوتی ہے کہ حافظ ابن حجر نے حضرت عائشہ کے اس بیان کو تہجد سے متعلق قرار دے کر تہجد مع وتر کی رکعتوں کے گیارہ ہونے کی حکمت یہ ذکر کی ہے … میرا مقصد یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کی اس تقریر سے بھی حدیث عائشہ کا تہجد کے باب میں ہونا ثابت ہے …(رکعات ص) ج:اگر اتنا ہی مقصد تھا تو پھر اس فضول درد سری سے کیا حاصل؟کون کہتا ہے کہ یہ حدیث تہجد کے باب سے نہیں ہے۔ہم تو مانتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق باب تہجد اور باب تراویح دونوں سے ہے۔اسی لئے امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کو ان دونوں ابواب کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔محتاجِ دلیل تو آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ ''اس حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں ہے ''۔اس کی آپ نے کوئی دلیل نہیں دی۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حافظ ابن حجر کی اس تقریر کا منشاء یہ ہے کہ