کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 54
ہے۔ہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کسی عدد معین پر ''قصر '' اور ''حصر '' کا انکار کیا ہے۔یعنی آٹھ رکعات کا ''ثبوت '' فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تسلیم کرتے ہیں،لیکن اس پر حصر کر دینا کہ'' نفلی طور پر بھی اس سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے ''۔اس کو وہ صحیح نہیں سمجھتے۔ تو اس کا کون منکر ہے؟کس اہل حدیث نے کہا ہے کہ آٹھ رکعات تراویح سے زیادہ تنفلاً بھی جائز نہیں ہے۔نزاع کم و بیش عد د کے جواز میں نہیں ہے۔نزاع اس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے کیا ثبوت ہے۔؟ پس امام شوکانی کی یہ بات اہل حدیث کے مسلک کے خلاف تو قطعاً نہیں۔جیسا کہ مولانا مئوی اپنی خوش فہمی سے سمجھ رہے ہیں،یا سمجھانا چاہتے ہیں،بلکہ یہی اہل حدیث کا مذہب ہے۔ہاں ان حنفیوں کے خلاف ضرور ہے جو بیس کے عدد میں بھی تضییق و تحدید پیدا کرتے ہیں اور مقدار قراء ت کے بارے میں بھی کچھ تخصیصات بیان کرتے ہیں۔بیس کے عدد کے متعلق احناف کی تضییق و تحدید کا ذکر پہلے آچکا ہے۔اب مقدار قراء ت کے متعلق فقہ حنفی کی کچھ باتیں ہم آپ کو بتاتے ہیں: قیل الافضل ان یقرا قدر قراء ة المغرب و قیل یقر فی کل رکعة ثلاثین آیة۔(فتح القدیر جلد اول ص 335 مصری) '' یعنی افضل یہ ہے کہ تراویح کی ہر رکعت میں اتنی قراء ت کرے جتنی مغرب کی نماز میں ہوتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ہر رکعت میں تیس آیتیں پڑھے ''۔ و فی مختارات النوازل انہ یقرء فی کل رکعة عشر آیات(بحر الرائق ج ثانی ص 68)