کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 53
عائشہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت جابر سے مروی ہے۔ہاں ہر رکعت میں قرا ت قرآن کی جو خاص مقدار بیان کی جاتی ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ''۔ بتائیے اس عبارت میں واما لعدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ کی صراحت ہوتے ہوئے بھی کوئی خدا ترس انسان صداقت و امانت کا خون کیے بغیر یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ '' شوکانی کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے ''۔کیا آٹھ کا عدد کوئی معین عدد نہیں ہے اگر ہے اور یقیناً ہے تو پھر غلط بات ان کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے؟زیادہ صاف لفظوں میں سننا چاہتے ہو تو سنو!امام شوکانی نے جس عدد معین کے ثبوت کا انکار کیا ہے وہ بیس رکعت ہے۔چنانچہ بصراحت فرماتے ہیں: و امام ما استحسنہ جماعة من اھل العلم من جعل ھٰذہ الصلوٰة عشرین رکعة و جعل القراء ة فی کل رکعة شیئا معیناً فھذا لم یکن ثابتا بخصوصہ لکنہ من جملة ما یصدق علیہ انہ صلاة و انہ جماعة و انہ فی رمضان انتھی۔(عون الباری مع نیل ص 377،ج 4) ''یعنی اہل علم کی ایک جماعت نے تراویح کی بیس رکعتوں کو اور اس کی ہر رکعت میں قرات کی ایک معین مقدار کو جو مستحسن قرار دیا ہے تو یہ ثابت نہیں ہے،لیکن اس پر صادق ہے کہ یہ نماز ہے اور جماعت ہے اور رمضان میں ہے ''۔بالفاظ دیگر امام شوکانی بیس رکعت کو رمضان شریف میں ایک نفلی عبادت کی حیثیت سے جائز تو کہتے ہیں مگر اس کا انکار کرتے ہیں کہ یہ عدد خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔عدد ثابت تو بس آٹھ اور گیارہ ہی رکعات ہے۔لہذا یہ کہنا صریح مغالطہ ہے کہ امام شوکانی نے ''کسی '' عدد معین کے ''ثبوت '' کا انکار کیا