کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 50
ملحوظ رکھتا ہے۔سائل نے صورة مسؤلہ میں المعھودة الآن کی قید لگائی ہے۔یعنی وہ بیس رکعات جو مروج ہیں۔ظاہر ہے کہ اس مروجہ صورت میں وہ احناف بھی آ جاتے ہیں جو بیس رکعتوں کے التزام کے ساتھ یہ تحدید و تضییق بھی کرتے ہیں کہ بیس سے کم پڑھنا گناہ ہے۔کیونکہ اس میں سنتِ مؤکدہ کا ترک کرنا ہے اور بیس سے زیادہ باجماعت ادا کرنا مکروہ ہے۔ اس چوتھی دلیل(الوجہ الرابع)میں علامہ سیوطی نے اسی مسلک کی تردید کی ہے۔ان کا منشا یہ ہے کہ جب بیس رکعات ہی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثبوت نہیں ہے تو بھلا یہ تحدید و تضییق فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاں ثابت ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء کا اس کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ولو ثبت ذالک(ای ذالک العدد الخاص بھذا التحدید والتضییق)من فعل النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لم یختلف فیہ کعدل الوتر وسنن الرواتب۔ ''یعنی اگر یہ بیس رکعات کی تعداد اس تحدید و تضییق کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوتی تو پھر اس میں علماء کا اختلاف نہ ہوتا ''۔ تنبیہ:اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ امام سیوطی کے نزدیک بجائے بیس کے اگر آٹھ رکعات بلاوتر ثابت ہیں۔جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح ابن حبان وغیرہ کے حوالے سے انہوں نے بیان کیا ہے تو اس پر بھی تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ: لو ثبت ذالک من فعل النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لم یختلف فیہ؟ تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ معارضہ اس وقت صحیح ہوتا جب امام سیوطی اس عدد کو تحدید و تضییق کے ساتھ ثابت مانتے۔یعنی نفلی طور پر بھی وہ اس میں کسی زیادتی مکروہ یا ممنوع سمجھتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔جیسا کہ اس عبارت میں بھی