کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 47
شاء اقل و من شاء اکثر(المصابیح ص 9) قولہ:۔سیوطی مصابیح میں لکھتے ہیں: ان العلماء اختلفوا فی عددھا ولو ثبت ذالک من فعل النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لم یختلف فیہ(ص 42)(رکعات) ج: یہاں بھی مولانا نے حذف واختصار سے کام لے کر منشاء متکلم کو خبط کر دیا ہے۔اصل یہ ہے کہ امام سیوطی نے یہ کتاب ایک خاص سوال کے جواب میں لکھی ہے۔چنانچہ حمد و صلوٰة کے بعد ہی وہ لکھتے ہیں: وبعد فقد سئلت مرات ہل صلی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم التراویح وہی العشرون رکعة المعہودة الآن وانا اجیب بلا ولا یقنع منی بذلک فاردت تحریر القول فیہا فاقول الخ یعنی '' مجھ سے کئی مرتبہ یہ سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی بیس رکعتیں پڑھی تھیں جو آج کل مروج ہیں؟تو میں جواب یہی دیتا رہا کہ نہیں۔لیکن اتنے جواب پر لوگ مطمئن نہ ہوتے تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ اس پر کچھ لکھوں ''۔ اس عبارت میں '' المعہودة الان'' کے لفظ پر غور کیجئے۔وہی بیس رکعات جن کے '' تعامل'' کا ڈھنڈورا علامہ مئوی پیٹ رہے ہیں۔انہی کی بابت علامہ سیوطی سے سوال کیا گیا اور اسی کے جواب میں انہوں نے یہ مفصل کتاب(المصابیح فی صلوٰة التراویح)لکھی جس میں چند پرزور وجوہ و دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان مروجہ بیس رکعتوں کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے۔ لم یثبت انہ صلی اللّٰه علیہ وسلم صلی عشرین رکعة ص1 پھر صفحہ 6 پر لکھتے ہیں: