کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 46
متعلق ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گیارہ رکعات کی بابت ان کوامام مالک کا یہ قول تسلیم ہے کہ: ھی صلوٰة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اور جب اس تعداد کا فعلِ نبوی ہونا ثابت ہو گیا تو ماننا پڑے گا کہ علامہ سبکی نے جو یہ کہا ہے: اعلم انہ لم ینقل کم صلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی تلک اللیالی ھل ھو عشرون او اقل۔ تو ان کا مقصد یہ ہے کہ صحیحین یا سنن کی جن روایتوں میں تین راتوں کی تفصیلات مذکور ہیں،ان روایتوں میں کوئی عدد منقول نہیں ہے کہ رکعات کی تعداد بیس تھی یا اس سے کم یہ منشا نہیں ہے کہ مطلقاً فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد منقول ہی نہیں ہے۔ایسی بدیہی البطلان بات سبکی جیسا محقق عالم کیسے کہ سکتا ہے۔پس کسی خاص قید اور کسی خاص ظرف سے ثبوت کی نفی سے مطلقاً عدد خاص کے ثبوت کی نفی لازم آتی ہے۔فاندفع ما توھم۔ آخر میں علامہ سبکی نے یہ خاص بات صاف کر دی ہے کہ تراویح کوئی فرض نماز نہیں ہے کہ اس کی رکعات میں تحدید و تعیین ہو،بلکہ یہ تو ایک نفلی نماز ہے۔اس لئے ا س کے پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ وہ اپنی طاقت اور شوقِ عبادت کے لحاظ سے زیادہ پڑھے یا کم۔چنانچہ لکھتے ہیں: الا([1])ان ھٰذا امر یسھل الخلاف فیہ فان ذالک من النوافل من
[1] نواب صاحب مرحوم نے مسک الختام میں اس عبارت کا جو ترجمہ پیش کیا ہے اس میں شرح منہاج ہی کا حوالہ دیا ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سب عبارت علامہ سبکی ہی کی ہے۔سیوطی کی نہیں ہے۔