کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 44
وکان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قیامہ باللیل ھو وترہ یصلی باللیل فی رمضان وغیر رمضان احد عشرة رکعة اوثلاث عشرة رکعة دیکھئے ایک طرف تو شیخ الاسلام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ''عدد معین'' کی توقیت کی نفی کر رہے ہیں اور دوسری طرف خود ہی یہ تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ آپ گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔یہ دونوں باتیں وہ ساتھ ہی ساتھ کہہ رہے ہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ''نفی اور اثبات'' انہیں دو صورتوں کے اعتبار سے ہیں جو اوپرہم نے بیان کی ہیں۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا جہاں تک تعلق ہے وہاں تو گیارہ یا تیرہ ہی رکعات کا ذکر ہے اور یہی تعداد ثابت ہے،مگر اس کے باوجود اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسی عدد خاص میں تراویح کی رکعتوں کی تحدید و تعیین کر دی گئی ہے کہ لا یزاد علیہ ولا ینقص۔جس کا یہ گمان ہو وہ غلطی پر ہے۔یعنی ''نفی'' ایسی تحدید و تعیین کے اعبار سے ہے جس میں کمی و زیادتی کو ناجائز سمجھا جائے اور ''ثبوت'' فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان وذکر کے اعتبار سے ہے یہی دو صورتیں ہم نے اوپر بیان کی ہیں۔اہل حدیث بھی یہی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے جو تعداد بسند صحیح ثابت ہے وہ سنت اور بہتر ہے باقی نفلی نماز کی حیثیت سے اس کی کوئی تحدید و تعیین نہیں ہے جس سے جتنی ہو سکے پڑھے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: الصلوة خیر موضوع فمن شاء استقل ومن شاء استکثر رواہ