کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 43
حنفیوں کے یہاں جو یہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات سے کم پڑھنے والا تارکِ سنت گنہگار ہے اور بیس سے زیادہ با جماعت پڑھنا مکروہ ہے اور دوسری صورت کی شق ثانی کا کوئی بھی منکر نہیں ہے۔یعنی پہلے گروہ کے علماء بھی یہ مانتے ہیں کہ قول اور امر نبوی سے نہیں مگر فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تعداد کا ذکر موجود اور ثابت ہے۔یہ دوسری بحث ہے کہ وہ تعداد کیا ہے۔اور کون صحیح ہے اور کون ضعیف؟۔ پس اس مسئلہ میں علماء کے اختلاف کا افسانہ تو سرا سر غلط ہے۔رہا یہ کہ ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کا ثبوت کیا ہے؟تو آئیے سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہی کی عبارتوں پر غور کریں جن کا نام اس سلسلہ میں سرفہرست ہے۔ امام ابن تیمیہ کی جو عبارت مولانا مئوی نے یہاں نقل کی ہے۔بنظر اختصار یا مصلحتا اس کے شروع کا حصہ حذف کر دیا ہے جس کی وجہ سے متکلم کا اصل منشا خبط ہو گیا۔ اور یہ ظلم مولانا نے صرف غریب ابن تیمیہ ہی پر نہیں کیا بلکہ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ تقریباً تمام ان عبارتوں کے ساتھ اسی قسم کا معاملہ ہوا ہے جو مولانا نے اس موقع پر نقل کی ہیں۔ یہ بات یقینا ''علامہ کبیر اور محدث شہیر'' کی شان تقدس اور عالمانہ احتیاط کے بالکل منافی ہے۔الانتقاد الرجیح کا وہ صفحہ کھول کر دیکھئے جس کا حوالہ مولانا نے دیا ہے۔عبارت اس طرح شروع ہوئی ہے۔ ان[1] نفس قیام رمضان لم یوقت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فیہ عدداً معیناً بل ھو کان صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یزید فی رمضان ولا غیر علی ثلث عشر رکعة الخ یہی ابن تیمیہ فتاوی جلد اول 148 میں لکھتے ہیں
[1] یہ عبارت آخر تک نواب صاحب نے الانتقاد الرجیح میں توشیخ الاسلام ابن تیمیکی بتایا ہے مگر عون الباری میں اس عبارت کو انہوں نے شیخ الاسلام ابن القیم کی طرف منسوب کیا ہے واللہ اعلم۔