کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 42
ہے جن عبارتوں سے آپ نے اختلاف کا مفہوم پیدا کیا ہے یا تو آپ نے ان کو سمجھا نہیں ہے اور یا جان بوجھ کر ان عبارتوں کو غلط معنی پہنایا ہے۔زیادہ قرین قیاس دوسری ہی صورت ہے،کیونکہ عبارتوں کے نقل کرنے میں آپ نے جیسی کتر بیونت کی ہے اور جس افسوسناک حذف و اختصار سے کام لیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل آپ کی نیت تحقیق حق کی نہیں بلکہ تلبیس حق کی ہے سب سے پہلے ایک بات یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہاں دو صورتیں ہیں: (1) ایک یہ کہ نص نبوی سے رکعات تراویح کی تحدید و تعیین کا ثبوت۔یعنی قول یا فعلِ نبوی سے اس کی کوئی خاص مقدار مقرر کرکے ایسی حد بندی اور تعیین کر دی گئی ہو جس میں نہ کمی جائز ہو اور نہ زیادتی۔جیسا کہ فرض نمازوں میں رکعات کی تعداد ہے۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ قول یا فعل نبوی میں کسی عدد کے ذکر کا ثبوت۔یعنی جس طرح احادیث اور روایات میں نفس نماز تراویح کی بابت یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔اس کے فضائل بیان کئے ہیں اور خود بھی ادا فرمایا ہے۔اسی طرح آیا روایتوں میں اس کا بھی کہیں کوئی ذکر ہے یا نہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو کہ اتنی رکعتیں پڑھا کرو۔یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ مولانا مئوی نے ان دونوں صورتوں میں فرق نہیں کیا اس لئے غلط بحث میں مبتلا ہو گئے۔ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جن علماء نے ''عدد خاص'' سے انکار کیا ہے۔ان کی مراد وہی پہلی صورت ہے کیونکہ تراویح ایک نفلی نماز ہے۔اس کی رکعات میں شرعاً فرض نمازوں کی طرح تحدید اور تعیین نہیں ہے۔دوسرے گروہ کے علماء بھی اس کے قائل نہیں ہیں۔ہاں اگر کچھ تضییق و تحدید ہے تو ان