کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 415
خاتمہ مولانا ابوالمآثر حبیب الرحمن مئوی اعظمی کی کتاب’’رکعات تراویح‘‘کے جواب کے سلسلے میں اوپر جو معروضات پیش کئے گئے ہیں ان سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ۱۔ نہ عہد فارقی میں اور نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد کسی زمانے میں بھی بیس رکعات تراویح پر امت اسلامیہ کا اجماع نہیں ہوا،بلکہ اس کے برخلاف ہرزمانے میں نفل کی حیثیت سے بیش سے کم یا بیس سے زیادہ رکعتوں پربھی سلف امت کا عمل رہا ہے۔ ۲۔ جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح پڑھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھنا یکسر باطل اوربالکل بے اصل وبے بنیاد ہے اوربے جماعت پڑھنے کی جو مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے اس کے بنیادی راوی(ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان)کو کسی ناقدین محدث نے ثقہ اور معتبر راوی نہیں کہا ہے۔بلکہ بالاتفاق سب نے اس کو مجروع اورضعیف ہی قراردیاہے۔امام ابو شیبہ نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ وہ کاذب ہے اور امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس سے روایت لینا حلال نہیں۔ ۳۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی اورتقریری سنتوں سے تراویح کی گیارہ رکعتیں باوتر اورآٹھ رکعتیں بلا وتر صحیح اور مقبول حدیثوں سے بلاشبہ ثابت ہیں۔ان حدیثوں کے جواب میں مولانا نے جتنی تاویلیں یا جرحیں پیش کی ہیں وہ سب کی سب محدثین کے اصول اورتصریحا کی رو سے غلط اور نامقبول ہیں۔ ۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک کسی نے بھی گیارہ رکعت تراویح کے سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے سے انکار نہیں کیا ہے حتی کہ