کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 411
کسی ایک کی بھی اتباع نہیں کی جاتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طول قیام کا تو یہ حال تھا کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے تھے۔(حتی ترم قدماہ بخاری ص ۱۵۲/۱)اور اتنے سوج جاتے تھے کہ پھٹ جاتے تھے۔(قالت عائشۃ حتی تفطر قدماہ۔حوالہ مذکور)اسی واسطے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایکم یطیق ماکان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یطیق(بخاری ص ۲۶۷/۱)وفی طریق اٰخریکم یستطیع ماکان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یستطیع۔(بخاری ص ۹۵۷/۲) یعنی تم میں سے کون طاقت رکھتا ہے کہ پوری طرح اس کیفیت کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کرے جس کیفیت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حق ادافرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کے اس بیان سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ ہم کو وہ طاقت ہی حاصل نہیں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی تو پھر ہم وہ مشقتیں کہاں برداشت کر سکتے ہیں جن کا تحمل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ ہم کو اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ کوشش اورمحنت کرنی چاہیے۔سوالحمدﷲ اہل حدیث فی الجملہ اس کا حق ادا کرتے ہیں۔آج بھی جس کاجی چاہے اہل حدیث اور احناف دونوں کی تروایح کے اوقات کا موازنہ کرکے دیکھ لے۔جتنی دیر میں اہل حدیث دور کعتیں پڑھتے ہیں اتنی دیر میں احناف کم ازکم آٹھ رکعتیں پڑھ ڈالتے ہیں۔ ثانیاً۔یہ بھی سوچنے بات کی ہے کہ ایک قیام لیل اورتراویح ہی کیا؟دوسرے تمام دینی کام مثلاً فرض ونفل نمازیں،روزے،صدقہ خیرات،حج حتیٰ کہ تبلیغ اسلام اوردعوت وارشاد وغیرہ جس خشوع اور خضوع،اخلاص،اطمینان