کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 409
نزاع تو انہی لفظوں پر ہے۔اگر آپ لوگ ان دعووں کو چھوڑ کرشیخ الاسلام ابن تیمیہ ہی کی طرح تسلیم کر لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت بھی پڑھتے تھے تو تیرہ بھی۔اور اس سے زیادہ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔آج بھی اگرکوئی جماعت طول قیام کے ساتھ گیارہ یا تیرہ رکعتیں پڑھے تو یہی افضل ہے۔ہاں اس کے بعد اگر کوئی شخص بیس پڑھے یا چھتیس یا چالیس یا ان سے کم وبیش سب صورتیں بلاکراہت جائز ہیں تو بس ہمارے اور آپ کے مابین نزاع ختم ہو جاتی ہے۔اوراگر اپنی ذاتی مصلحتوں کے پیش نظر آپ ایسا کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے تو پھر خواہ مخواہ شیخ الاسلام کی ادھوری عبارتوں کو پیش کرکے ان کے مفہوم اور مدلول کو بگاڑنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟اور غلط طریقہ پر ان کے نام کو استعمال کر کے دنیا کو مغالطہ میں کیوں ڈالتے ہیں؟ طول قیام کی بابت ایک شبہہ اوراس کا جواب:اگر کہا جائے:کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رمضان اورغیر رمضان میں رات کی نفلی نماز میں بہت لمبا قیام فرماتے تھے۔اتنا لمباکہ کبھی آدھی رات ہو جاتی اور کبھی سحری کا وقت آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ آج موافق یا مخالف کسی میں اتنے لمبے قیام کی ہمت اورحوصلہ ہے؟اور جب اس خاص کیفیت کے ساتھ ہم گیارہ رکعتوں کے اداکرنے کی ہمت اورطاقت نہیں رکھتے تو اب اس تعداد کے مطابق رمضان میں اس نماز کاپڑھنا درست نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے بیس ہی رکعتوں کو معمول بنانا چاہیے۔کیونکہ تراویح میں رکعتوں کا اضافہ لوگوں نے طول قیام کے عوض ہی کیا ہے۔ ج:تو اس کا جواب پر وجوہ عرض کرتا ہوں۔سنیے! اولاً احکام شرعیہ پرعمل کرنے کے متعلق جناب رسالت معآب صلی اللہ علیہ وسلم