کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 406
امام شافعی کی عبارت کا مطلب:شیخ الاسلام کی اس عبارت سے جیسے امام احمد ؒ کے اس قول کی وضاحت ہوتی ہے جو شاہ ولی اللہ صاحب نے نقل کیا ہے اسی طرح امام شافعی ؒ کے اس قول کا بھی یہی محمل ہے جو مولانا مئوی نے رکعات ص ۸۹ پر بحوالہ قیام اللیل نقل کیا ہے جس میں امام شافعی ؒ نے فرمایا ہے کہ میں نے مدینہ میں لوگوں کو انتالیس رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے: قال واجب الیٰ عشرون قالوکذالک یقومون بمکۃ (اور میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ بیس رکعتیں ہیں اور مکہ میں لوگ یہی کرتے ہیں)یعنی بیس اور انتالیس جو عدد مسنون پر اضافہ کی ہوئی رکعتیں ہیں۔ان اضافہ کی ہوئی رکعتوں میں سے بیس احب ہے۔عدد مسنون پر اضافہ کی ہوئی رکعتیں ہیں۔ان اضافہ کی ہوئی رکعتوں میں سے بیس احب ہیں۔عدد مسنون کے مقابلہ میں اس کو احب نہیں کہا ہے بلکہ نفل کی حیثیت سے ان سب صورتوں کو جائز کہا ہے۔فرماتے ہیں:ولیس فی شیئ من ھذہ ضیق ولا حد ینتھی الیہ(ان میں سے کسی عدد کی بابت تحدید اور تنگی نہیں ہے کہ اس پر رک جایا جائے نہ کمی کی جا سکے نہ زیادتی کیونکہ یہ نفل نماز ہے)امام شافعی نے نفل کی حیثیت سے کمی زیادتی کو جائز رکھتے ہوئے پسندیدگی اور افضلیت کا معیار طول قیام کو قرار دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں: فان اطالوا القیام واقلو السجود فحسن وھو احب الی وان اکثر والرکوع والسجود فحسن یعنی(اگر قیام لمبا کریں اور رکعتوں کی تعداد کم کریں تو وہ بھی اچھا ہے اور مجھے وہی زیادہ پسند ہے اور اگر رکوع و سجود زیادہ کریں تو وہ بھی اچھا ہے)اس معیار کی رو سے