کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 405
چالیس رکعتیں یا اس کے علاہ پڑھے تو یہ بھی جائز ہے اس میں سے کوئی صورت بھی مکروہ نہیں ہے(یعنی حنفیہ جو بیس رکعت سے زیادہ باجماعت پڑھنے کو مکروہ کہتے ہیں تو ان کا یہ کہنا غلط ہے)امام احمد وغیرہ متعدد ائمہ نے اس کی صراحت کی ہے جو شکص یہ خیال کرتا ہو کہ قیام رمضان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص عدد کی اس طرح تعیین کر دی ہے کہ اب اس میں نہ کمی کی جا سکتی ہے اور نہ زیادتی تو یہ زعم غلط ہے(جیسے حنفیہ نے یہ تعیین کردی ہے کہ بیس ہی رکعت سنت مؤکدہ ہے جو اس سے کم پڑھے وہ سنت مؤکدہ کا تارک ہے اس لئے گنہگار ہے اور جو اس سے زیادہ جماعت کے ساتھ پڑتھے وہ فعل مکروہ کا مرتکب ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ نے اسی مسلک کی تردید کی طرف اشارہ کیا ہے)۔ امام ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک گیارہ یا تیرہ رکعت قابل ترک نہیں بلکہ طول قیام کے ساتھ اس عدد کے مطابق پڑھنا آج بھی افضل ہے:دیکھئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے صاف صاف تسلیم کیا ہے کہ تعداد کے اعتبار سے تو آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم وتر سمیت تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے البتہ کیفیت کے لحاظ سے بے شک آپ کا قیام لمبا اور قرات طویل ہوتی تھی۔سو اس سنت کو مصلیوں کی جو جماعت اختیار کرے اسی کا طریقہ آج بھی افضل ہے(اللہ کی توفیق سے اہل حدیث اس سنت پر عمل ہیں۔تفصیل آگے آ رہی ہے)ہاں اگر طول قیام کی طاقت نہ ہو تو اس صورت میں(اجتہاد اور فہم و فراست سے اضافہ کی ہوئی رکعتوں میں سے)بیس پر عمل کرنا افضل ہے کیونکہ یہ عدد متوسط ہے عدد مسنون کے بعد بیس یا چھتیس یا چالیس یا ان سے کم و بیش جس عدد پر بھی عمل کیا جائے بلا کراہت سب صورتیں جائز ہیں۔امام احمد وغیرہ ائمہ نے اس کی تصریح فرما دی ہے۔