کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 404
نہیں پڑھتے تھے۔اور رکعتیں لمبی لمبی پڑھتے تھے۔اس کے بعد عہد فاروقی میں بیس پھر سلف کی ایک جماعت کا چالیس اور چھتیس رکعتوں پر عمل کرنے کا ذکر کرکے لکھتے ہیں:وھذا شائع فکیفما قام فی رمضان من ھذہ الوجوہ فقد احسن یعنی اس کے مطابق سلف کا عمل شائع ہے اس لئے ان صورتوں میں سے جس پر بھی عمل کیا جائے سب ٹھیک ہے رہا یہ کہ افضل کون سی صورت ہے؟تو اس کی بابت لکھتے ہیں والافضل یختلفباختلاف احوال المصلین فان کان فیہم احتمال لطول القیام فلقیام بعشر رکعات وثلث بعدھا کما کان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلی لنفسہ فی رمضان وغیرہ ھو الافضل وان کانوا لا یحتملون فالقیام بعشرین ھو الافضل وھو الذی یعمل بہ اکثر المسلمین فانہ وسط بین العشر والاربعین وان قام باربعین وغیرھا جاز ذلک ولا یکرہ شیئ من ذلک وقد نص علی ذلک غیر واحد من الائمہ کاحمد وغیرہ ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد موقت عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یزاد علیہ ولا ینقص فقد اخطأاٰہ۔ یعنی افضل صورت کی تعیین مصلیوں کے حالات کے اعتبار سے ہو گی۔اگر مصلیوں کو طول قیام کے برداشت کرنے کی طاقت ہو تو ان کے حق میں افضل یہ ہے کہ(زیادہ سے زیادہ)دس رکعات تراویح اور اس کے بعد تین رکعات وتر پڑھیں جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اور غیر رمضان میں معمول تھا اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ان کے حق میں بیس رکعتیں پڑھنا اضل ہے کیونکہ یہ دس اور چالیس رکعتوں کے بیچ کا عدد ہے اسی پر زیادہ مسلمان عمل کر رہے ہیں۔اور اگر