کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 403
گذر چکا اور بقول شاہ صاحب کے ۲۳ رکعتوں کی تعیین کاماخذ بھی یہی گیارہ کا عدد ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔حضرت عمرؓ نے اپنے اجتہاد سے اسی کو مضاعف کر دیا۔شاہ صاحب کی آخری عبارت ولہذا امام احمد میں لفظ لہذا خاص طور سے قابل غور ہے) چوتھا یہ کہ امام احمد نے گیارہ اور تئیس رکعتوں کے درمیان اختیار دیا ہے(یعنی اگر کوئی شخص صرف عدد مسنون ہی پر اکتفا کرے تو یہ بھی جائز ہے اور اگر طول قیام میں تخفیف کرکے کثرت سجود کا ثواب حاصل کرنا چاہے تو نفل کی حیثیت سے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے)امام احمد ہی مقولہ ہے(قد قیل فیہ الوان نحوا من اربعین انما ھو تطوع ۰قیام اللیل ص ۹۲)یعنی تراویح کے بارے میں مختلف قول ہیں۔چالیس رکعتوں تک کا قول منقول ہے۔یہ نفل نماز ہے(نفل کی حیثیت سے کم وبیش جتنی ہو سکے پڑھے کسی خاص عدد کی پابندی ضروری نہیں ہے)۔ اسی بات کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے زیادہ صاف لفظوں میں پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ان نفس قیام رمضان لم یوقت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فیہ عددا معینا بل ھو کان صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یزید فی رمضان ولا غیرہ علی ثلث عشرۃ رکعتۃ کان یطیل الرکعات یعنی قیام رمضان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً تو کوئی عدد معین نہیں فرمایا لیکن عملاً آپ رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا کبھی تیرہ رکعت سے زیادہ([1])
[1] تیرہ رکعت سے زیادہ کی نفی کرنے کامطلب یہ ہے کہ گیارہ رکعت کا پڑھنا تسلیم ہے چنانچہ فتاویٰ جلد اول ص ۱۴۸ میں اس کی تصریح کر دی گئی ہے۔لکھتے ہیں۔یصلے باللیل فی رمضان احدے عشرۃ رکعۃ او ثلث عشرۃ رکعۃ۔