کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 4
دارالحدیث رحمانیہ،مولانا ابو طاہر البہاری،مولانا غلام یحییٰ پنجابی کان پوری،حضرت مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی مدظلہ العالی اور حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب نگر نہسوی مرحوم جیسے اساطین علوم و فنون متعلقہ سے خوب خوب اکتساب فیض کیا۔
مسند تدریس اور بدایوں کا تعلیمی سفر:۔ سند فراغت کے بعد(شعبان 1346ھ)دارالحدیث رحمانیہ ہی میں مدرس مقرر کر دیئے گئے جب کہ عمر عزیز کی 23 ویں منزل میں تھے۔
جن فنون کو ہمارے درس نظامی میں معقولات کہا جاتا ہے ان سے چونکہ صاحبِ ترجمہ کو طبعی لگاؤ تھا اس لئے ان میں مزید پختگی پیدا کرنے اور اپنے ذوق کو تسکین دینے کے لئے اسی سال مہتمم مدرسہ مرحوم و مغفور شیخ عطاء الرحمن صاحب مہتمم مدرسہ رحمانیہ کی تجویز پر بدایوں کے مشہور مدرسہ معقولات ''شمس العلوم '' جاکر داخلہ لیا اور ایک سالہ قیام میں وہاں کے ایک معقول و ریاضی میں یگانہ روزگار ماہر عالم مولانا عبدالسلام صاحب قندھاری افغانی مرحوم سے بہت سی درسی وغیرہ درسی کتابوں کی تکمیل کر لی۔بعدہ دہلی واپس آگئے اور مستقل طور سے دارالحدیث رحمانیہ کے ہو رہے۔۔۔۔۔تاآنکہ اکتوبر 1947ء کے خونی فسادات کا حادثہ پیش آگیا اور ہندوستان تقسیم ہو کر برصغیر ہندو پاک کی شکل اختیار کر گیا۔
1947 ء 1366ھ کے بعد:ایک سال گھر پر قیام کرنے پر مجبور ہو گئے اور آخر 1948ء میں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ در بھنگہ(صوبہ بہار۔ہند)میں پھر مسندِ تدریس کو رونق بخشی۔جہاں کم و بیش ایک سال گذرا۔بعدہ جنوری 1950ء میں بنارس کے جامعہ رحمانیہ آگئے اور اخیر عمر تک اسی جگہ اصلاحی،تبلیغی و تالیفی