کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 398
لا یحل حالانکہ یہ جائز نہیں ہے ‘‘۔ اس سلسلہ میں صحابہؓ اور تابعین ؒ و ائمہ دین کے آثار و اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: فھولآء الصحابۃ والتابعون ثم ابو حنیفۃ و مالک و الشافعی و احمد و اسحق و داود کلھم یوجب القول بما اداہ اجتھادہ انہ الحق وان لم یعلم قائلابہ قبلہ(ص ۱۸۹) یعنی یہ صحابہ ؓ اور تابعین ؒ اور ان کے بعد امام ابو حنیفہؒ و مالکؒ و شافعی ؒ و احمدؒ و اسحقؒ و داؤد سب کے سب یہ کہتے ہیں کہ جس بات تک ان کا اجتہاد پہنچ جائے اور ثابت ہو جائے کہ یہی حق ہے تو اس پر اس کی اتباع واجب ہے اگرچہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا بھی اس کا قائل تھا یا نہیں ‘‘۔ یہاں تک لکھ دیا ہے: ولئن کان ما اشتھر من قول طائفۃ من الصحابۃ او التابعین ولم یعرف لہ خلاف اجماعا فما فی الارض اشد خلافا للاجماع ممن قلدوہ دینھم مالک والشافعی وابی حنیفۃ ولقد اخرجنا لھم مئین من المسائل لیس منھا مسألۃ الاولا یعرف احد قال بذلک القول قبل الذی قالہ من ھولاء الثلثۃ فبئس ما وسموا بہ من قلدوہ دینہم(ص مذکور) یعنی اگر اس کا نام’’اجماع‘‘ہے کہ صحابہ یا تابعین کی ایک جماعت کا کوئی قول مشہور ہو جائے اور اس کا کوئی مخالف معلوم نہ ہو … تو پھر اجماع کے سب سے بڑھ کر مخالف مالک و شافعی و ابوحنیفہ جیسے وہ ائمہ قرار پائیں گے جن کی یہ(اجماع کا دعوی کرنے والے)لوگ دینی احکام میں تقلید کرتے ہیں کیونکہ ان تینوں اماموں کے