کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 397
ہوتا ہے کہ وہ اس سے متفق اور راضی ہیں(علامہ ابن حزم اس کے بعد فرماتے ہیں)یہی ملمع سازی ان کی دلیل کا کل کائنات ہے اس کے علاوہ اس بات کی ان کے پاس اور کوئی دلیل نہیں ہے۔یہ ان مقلدین کی محض سخن سازی ہے میں اس کا بطلان نہایت واضح براہین سے ان شاء اللہ ثابت کردوں گا ‘‘۔ اس کے بعد علامہ ابن حزم نے مختلف قسم کے دلائل اور نقض و ایراد کے ذریعہ اس کا باطل ہونا ثابت کیا ہے۔پورے آٹھ صفحے تک مسلسل بحث کرنے کے بعد ص ۱۸۴ پر اس قسم کے اجماع کے مدعیوں کو خطاب کر کے فرماتے ہیں: ’’جس امر کے با رے میں تم محض اپنے ظن کاذب کی بنا پر اجماع کا دعوی کرتے ہو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو تمہا را یہ دعوی ایسے امر کے متعلق ہے جو قرآن عظیم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ کے موافق ہے فھذا الامر لانبالی اتفق علیہ ام اختلف فیہ انما الغرض ان یؤخذ بالنص فی ذلک سواء جمع الناس ام اختلفوا تب تو یہ ایسی چیز ہے کہ ہم کو اس کی پرواہی نہیں ہے کہ لوگ اس کے بارے میں متفق ہیں یا مختلف۔اصل غرض تو نص کی اتباع ہے چاہے اس پر اجماع ہو یا اختلاف۔اس کے لئے اجماع کے دعوے کو حجت بنانے کے کیا معنی؟ اوریا تمہارا یہ دعوی ایسے امر کے متعلق ہے جس کے موافق نہ تو قرآن کی کوئی نص ہے اور نہ سنت صحیحہ ثابتہ۔بلکہ ان دونوں کے عموم یا ظاہر مدلول کے مخالف ہے۔تم اجماع کے اپنے جھوٹے دعوے سے اس کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہو۔فھذہ کبیرۃ من الکبائر و قصد منکم الی رد الیقین بالظنون تو یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ جو بات بالیقین ثابت ہے اس کو ظن و تخمین سے رد کر دیا جائے وھذا