کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 393
لئے اجماع کا یہ دعوی اسی قبیل سے ہے جس کا ذکر حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب الصلوۃ میں ان لفظوں کے ساتھ کیا ہے لکھتے ہیں: وقد اتخد کثیر من الناس دعوی النسخ والاجماع سلما الی ابطال کثیر من السنن الثابتۃ عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم سنۃ صحیحۃ ابداً بدعوی الاجماع ولا دعوی النسخ الی ان یوجد ناسخ صحیح صریح متاخر نقلتہ الائمۃ و حفظتہ اذ محال علی الامۃ ان تضیع الناسخ الذی یلزمھا حفظہ وتحفظ المنسوخ الذی قد بطل العمل بہ ولم یبق من الدین و کثیر من المولدۃ متعصبین ذا أوا حدیثا یخالف مذھبم یتلقونہ بالتاویل و حملہ علی خلاف ظاہرہ ما وجدوا الیہ سبیلا فاذا جائھم من ذلک ما یغلبھم فزعو الی دعوی الاجماع علی خلافہ فان رأوا من الخلاف ما لا یمکنھم معہ دوی الاجماع فزعوا الی القول بانہ منسوخ ولیست ھذہ طریق ائمۃ الاسلام بل ائمۃ الاسلام کلھم علی خلاف ھذا لطریق وانہم اذا وجد والرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم سنۃ صحیحۃ صریحۃ لم یبطلوھا بتاویل ولا دعوی اجماع ولا نسخ والشافعی واحمد من اعظم الناس انکار لذلک وباللّٰه التوفیق انتھی(مجموعۃ الحدیث النجدیہ ص ۵۷۵ و ص ۵۷۶) ترجمہ’’بہت سے لوگوں نے نسخ اور اجماع کے دعووں کو بہت سی ایسی سنتوں کے ابطال کا ذریعہ بنا لیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔حالانکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت صحیحہ اجماع اور نسخ کے دعووں کی