کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 391
یکون الاجماع السکوتی قال الصیر فی وغیرہ(ج ۳ ص ۱۰۵) یعنی دوسری شرط یہ ہے کہ اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ جس امر پر اجماع ہوا ہے وہ اس زمانے کے تمام لوگوں کو پہنچا اور انہوں نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا۔اگر اس کا علم نہیں ہے تو وہ اجماع سکوتی نہیں ہو گا‘‘۔اس عبارت میں’’ان یعلم‘‘اور’’بلیغ جمیع اہل العصر‘‘کے الفاظ خاص طور سے قابل غور ہیں۔امام شافعی فرماتے ہیں:لا یکون لاحد ان یقول اجمعوا حتی یعلم اجماعھم فی البلدان(مجموعۃ الحدیث النجدیہ ص ۵۵۳)یعنی’’کسی کے لئے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فلاں بات پر اجماع ہے تاوقت یہ کہ وہ یہ جان نہ لے کہ اس پر تمام بلاد اسلامیہ کے لوگوں کا اتفاق ہے‘‘۔ ثالثا صرف اس بنا پر کہ ان روایتوں سے بیس یا بیس سے زائد رکعتوں کا ثبوت ہوتا ہے۔اور اس کے خلاف کا آپ کو علم نہیں ہے۔بیس یا بیس سے زائد رکعتوں کی نسبت اجماع منعقد ہو جانے کا دعویٰ کر دینا ا ئمہ اسلام کے نزدیک باطل ہے۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کتاب الصلوۃ میں لکھتے ہیں وقد انکر الائمۃ کالامام احمد و الشافعی وغیرہما ھذہ الاجماعات التی حاصلھا عدم العلم بالخلاف لا العلم بعدم الخلاف فان ھذا مما لا سبیل الیہ الا فیما علم بالضرورۃ ان الرسول جاء بہ اٰہ۔(مجموعۃ الحدیث النجدیہ ص ۵۵۲)۔ یعنی ائمہ اسلام جیسے امام احمد و امام شافعی وغیرہما نے ایسے اجماعوں کا انکار کر دیا ہے جن کی بنیاد اس بات پر ہے کہ خلاف کا علم نہیں ہے۔یہ نہیں کہ عدم خلاف کا علم ہو کیونکہ یہ بات تو صرف انہی چیزوں میں ہو سکتی ہے جن کے متعلق بالبداہت