کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 390
دعوی کریں ‘‘۔ علامہ شاطبی کے اس قول کے بموجب مولانا مئوی پر واجب ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر آج تک یا کم از کم حضرت عمرؓ کے زمانہ ہی میں تمام دنیائے اسلام میں(صرف مدینہ میں نہیں)جتنے مجتہد گذرے ہیں(صرف چند حضرات کا نام بتا دینا کافی نہیں ہے)ہر ایک سے اس کا ثبوت پیش کریں کہ ان کے نزدیک’’تراویح کی رکعتیں بیس سے کم نہیں ہیں‘‘۔کیونکہ اجماع کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے: اتفاق مجتھدی عصر من امۃ محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم علی امر شرعی(التحریر لابن الہمام باب الاجماع) اس کی شرح میں ہے: فاتفاق مجتھدی عصر یفید اتفاق جمیعہم ای اشتراکھم فی ذلک الامر اکجمع علیہ فخرج ما اتفق علیہ بعضھم کما ھو قال الجمہور انتھی(شرح التحریر لابن الحاج ص ۸۰ ج ۳)۔ یعنی کسی زمانے کے تمام مجتہدین امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی امر شرعی پر اتفاق کر لینا اس کو اجماع کہتے ہیں۔بعض مجتہدین امت کے کسی بات پر متفق ہوجانے کو باصطلاحِ اصول اجماع نہیں کہیں گے۔یہی جمہور کا مذہب ہے اور’’اتفاق کرلینے‘‘کا مطلب یہ ہے کہ سب مجتہدین اس اجماعی امر میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ مولانا مئوی نے جس اجماع کا دعوی کیاہے اس سے مراد’’اجماع سکوتی‘‘ہے۔اجماع سکوتی کے انعقاد و اعتبار کی بابت شرح ابن امیر الحاج للتحریر میں سات شرطیں مذکور ہیں۔منجملہ ان کے ایک شرط یہ لکھی ہے: ثانیھا ان یعلم انہ بلغ جمیع اھل العصر ولم ینکر واوالا فلا