کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 389
فزعم انہ مازال معمولا بہ فی جمیع اقطار الارض او فی جلھا من الائمۃ فی مساجد الجماعات من غیر نکیر ابی عبداللّٰه ثم اخذ فی ذمہ(کتاب الاعتصام الجزء الاول ص ۲۹۱) یعنی’’اس کا زعم ہے کہ دعا کے اس مخصوص طریقہ پر تمام یا کم از کم اکثر بلاد اسلامیہ کی مساجد میں برابر عمل ہوتا چلا آ رہا ہے سوائے ایک شخص ابو عبداللہ کے کسی نے بھی اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔اس کے بعد اس(زاعم)نے ابو عبداللہ کی مذمت کی ہے‘‘علامہ شاطبی اس قول کے نقل کرنے کے بعد اس کی تردید میں فرماتے ہیں: وھذا النقل تھور بلا شک لانہ نقل اجماع یجب علی الناظر فیہ والمحتج بہ قبل التزام عہدتہ ان یبحث منہ بحث اصل عن الاجماع لانہ لابد من النقل عن جمیع المجتہدین من ھذہ الامۃ من اول زمان الصحابۃ رضی اللّٰه عنم الی الان وھذا المر مقطوع بہ ولا خلاف انہ لا اعتبار باجماع العوام وان ادعوا الامامۃ انتھی(کتاب الاعتصام ص ۲۹۲ ج ۱) یعنی’’یہ بات جو نقل کی گئی ہے بلا شبہ بڑی جسارت کی ہے کیونکہ یہ اجماع کا دعوی ہے۔اجماع کا دعوی کرنے والے اور اس سے حجت پکڑنے والے پر لازم ہے کہ اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے پہلے وہ نفس اجماع کی حقیقت کو سمجھے۔اس لئے کہ اجماع کے لئے ضروری ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اول زمانے سے لے کر آج تک اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جتنے مجتہد ہوئے ہیں،ان سب سے یہ بات منقول ہو۔اجماع کے انعقاد کے لئے یہ امر قطعی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عوام کے اجماع کا کوئی اعتبار نہیں ہے،اگرچہ وہ امامت کا