کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 386
الاحوذی میں جو آثار پیش کئے گئے ہیں ان کی نسبت مولانا مئوی کو’’بڑے لطف کی ایک بات‘‘سوجھی ہے۔وہ بات آپ بھی سنئے اور لطف اٹھایئے۔فرماتے ہیں: ’’پھر بڑے لطف کی ایک بات یہ ہے کہ اس دعوی کی مخالفت میں جتنی روایتیں اور اقوال پیش کئے گئے ہیں ان سب میں بیس سے زائد رکعتوں کا ذکر ہے اور ایک قول کے سوا بیس سے کم کا کوئی بھی قول نہیں ہے‘‘۔(رکعات ص ۸۶) ج:لیکن بیس سے کم کا جو’’ایک قول ‘‘ہے اس کی قائل بھی خیر القرون کی ایک جماعت تھی۔وہ محض کسی ایک فرد کا انفرادی قول و عمل نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابو مجلز رحمہ اللہ کے اثر پر بحث کے ذیل میں گذر چکا ہے۔اس لئے مجھے کہنے دیجئے کہ اس موقع پر سب سے بڑھ کر جو بات لطف کی تھی اس کا ذکر تو آپ بھول ہی گئے۔ورنہ’’قندمکرر‘‘کا مزہ آ جاتا۔وہ یہ کہ ان پیش کردہ روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بیس سے زائد پر عمل کرنے والے بہت سے حضرات تھے،اسی طرح بیس سے کم پر عمل کرنے والوں کی بھی ایک جماعت تھی گویا سلف امت صرف بیس ہی رکعت کے پابند نہ تھے،بلکہ بیس سے زائد پر بھی ان کا عمل رہا ہے اور بیس سے کم پر بھی۔مولانا مئوی کو خود بھی اس کا اعتراف ہے،مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود دعوی کو بھی حق اور صواب ہی سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا عمل تو بس بیس ہی رکعت پر’’ٹھہر گیا تھا‘‘یعنی نہ اس سے زائد پڑھتے تھے اور نہ اس سے کم۔ ع کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ مولانا مئوی کا ایک نیا دعوی اور اس کا جواب:اس لطیفہ کا ذکر کرنے کے بعد مولانا مئوی نے اس پر ایک نیا دعوی متفرع کیا ہے۔لکھتے ہیں: