کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 382
یہ ہے کہ فرمایا کرتے تھے کہ فقیر کو اپنے دودھ کا چھٹنا اس طرح یاد ہے جیسے کل کی بات … فقیر را حالت انفطام خود کہ مدت عمر دو سال یا دو نیم خواہد بود آنچناں درخاطر است کہ گویا حکایت دیر وزاست‘‘۔(شرح سفر السعادت حیات شیخ عبد الحق ص ۲۰۴)۔ بتایئے ایسے صاحب علم و دیانت اور صاحب تلاش و تحقیق اور صاحبِ حفظ و ضبط کے متعلق یہ کیسے گمان کر لیا جائے کہ اس نے اپنی کتاب میں پورے وثوق کے ساتھ ایک ایسی بات ذکر کر دی ہے جو بقول مولانا مئوی’’بالکل بے اصل و بے بنیاد ہے‘‘۔بالخصوص ایسی حالت میں جب کہ وہ حنفی مذہب کی حمایت میں پوری طرح سرگرم اور مستعد تھے جیسا کہ ان کی کتابیں شاہد ہیں۔خود تراویح کے مسئلہ میں بھی انہوں نے بیس ہی رکعات کو صحابہ و تابعین وغیرہم کا مشہور عمل قرار دیا ہے۔مشکوۃ کی فارسی شرح اشعۃ اللمعات اور عربی شرح لمعات التنقیح میں انہوں نے اختلافی مسئل کے متعلق حنفی مذہب ہی کی تائید و توثیق کی ہے۔لمعات کے بارے میں شیح دہلوی کے سوانح نگار خلیق احمد صاحب نظامی لکھتے ہیں: لمعات میں لغوی و نحوی مشکلات اور فقہی مسائل کو نہایت عمدگی سے حل کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں احادیث سے فقہ حنفی کی تطبیق نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ہے۔خود فرماتے ہیں کہ اس شرح کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ حضرت امام شافعی اصحاب الرائے میں سے ہیں اور حضرت امام اعظم ؒ اصحاب ظواہر میں سے۔(حیات شیح عبدالحق ص ۱۶۹)۔ (تنبیہ:شیخ دہلوی کی یہ بات جہاں ان کے غلو اور تشدد کو ظاہر کر رہی ہے وہیں ان علماء احناف کے لیے قابل توجہ ہے جو اہل حدیث کو طنزاً’’اصحاب ظواہر‘‘کہتے