کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 381
محرک اور داعی تھا۔ شیخ موصوف کی علمی جلالت کا اندازہ کرنا ہو تو ندوۃ المصنفین دہلی کی شائع کردہ کتاب’’حیات شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ‘‘کا مطالعہ کیجئے۔تقریباً چار سو صفحے کی یہ مبسوط کتاب شیخ موصوف ہی کے حالات و سوانح پر لکھی گئی ہے۔اس موقع پر ہم اسی کتاب سے کچھ عبارتیں پیش کرتے ہیں اس کتاب کے مصنف خلیق احمد صاحب نظامی کتاب کے شروع میں لکھتے ہیں: ’’حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو اسلامی ہند کی علمی اور مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔تقریباً نصف صدی تک دہلی میں ان کی خانقاہ علم و فضل کا گہوارہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہی ہے۔ہزاروں تشنگان علم نے وہاں آ کر اپنی پیاس بجھائی ہے اور سینکڑوں گم گشتگان علم نے وہاں آ کر روشنی حاصل کی ہے ‘‘۔(صفحہ ۳)۔ یہی نظامی صاحب ان کی تصانیف کی نسبت لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی تصانیف کا مواد بڑی تلاش اور تحقیق سے جمع کرتے تھے۔انہوں نے کبھی ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھایا جس کا گہری نظر سے مطالعہ نہ کیا ہو اور جس کا ہر ہر پہلو پوری طرح ان کے سامنے نہ ہو۔تلاش و تحقیق کا یہ جذبہ بہت حد تک ان کی’’محدثانہ تربیت‘‘کی پیداوار تھا ‘‘(ص ۳۰۳) ان کے حافظہ کی نسبت لکھتے ہیں: ’’شیخ محدث کو اپنے تحقیقی کام میں جس چیز سے سب سے زیادہ مدد ملی وہ ان کا حافظہ تھا جس چیز کو ایک مرتبہ پڑھ لیا وہ نقش کا لحجر ہو گئی۔حد