کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 379
یعنی بحث نفس قیام رمضان کے سنت ہونے میں نہیں ہے(اس کا سنت ہونا توتسلیم ہے)بلکہ گفتگو تراویح کی اس نماز کے بارے میں ہے جو ایک خاص کیفیت اور متعین عدد(بیس رکعت)کے ساتھ آج عوام وخواص مسلمانوں کا معمول بنی ہوئی ہے حالانکہ اس خاص کیفیت اور اس متعین عدد کے ساتھ یہ نماز کسی قابل اعتماد اورقابل اعتبار دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ لیجئے’’اجماع‘‘توبڑی بات ہے۔نواب صاحب توفرماتے ہیں کہ بیس رکعت اور اس کےادا کرنے کی یہ کیفیت جس پر آج عام مسلمانوں کاعمل ہے کسی بھی معتبر دلیل سے ثابت نہیں ہے،لیکن اس کےباوجود نواب صاحب بیس یا اس سے کم وبیش رکعتوں کاناجائز نہیں سمجھتے۔فرماتے ہیں: نعم تجوز صلوٰۃ التراویح ودد الركعات فیهابزیادۃ ونقصان لكن لایقال انها سنۃ علی هذه الحلالۃ الطارئۃ با السنۃ الصحیحۃ المخكمۃ ماورد فی حدیث عائشۃ المذكورالمروی فی الصحیح انتهی(عون الباری مع نیل ص ۳۷۶ ج ۴) یعنی ہاں تراویح کی نماز پڑھنا بے شک صحیح ہے اور اس کی رکعتوں کی تعداد بھی کم بیش جائز ہے،لیکن یہ نہ کہنا چاہیئے کہ اسی کیفیت وتعداد کے ساتھ اداکرناسنت ہے جو(عہد نبوی)کے بعد رائج ہوئی ہے۔سنت صحیحہ ثابۃ تووہی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور جس کا ذکر پہلے ہوچکاہے۔(یعنی گیارہ رکعت مع وتر)۔ بتائیے ان صراحتوں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی دیانت دار انسان یہ کہنے کی جرأت کرسکتاہے کہ نواب صاحب توبارد وانکاریہ تسلیم کرے ہیں کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح پر اجماع ہوگیاہے؟ہم توحیران ہیں کہ ایسے’’ثقہ‘‘لوگوں کی اس اندھیراور دھاندلی پر اظہار افسوس بھی کریں توکن لفظوں