کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 377
یعنی بحث نفس قیام رمضان کے سنت ہونے میں نہیں ہے(اس کا سنت ہونا توتسلیم ہے)بلکہ گفتگو تراویح کی اس نماز کے بارے میں ہے جو ایک خاص کیفیت اور متعین عدد(بیس رکعت)کے ساتھ آج عوام و خواص مسلمانوں کا معمول بنی ہوئی ہے حالانکہ اس خاص کیفیت اور اس متعین عدد کے ساتھ یہ نماز کسی قابل اعتماد اور قابل اعتبار دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ لیجئے’’اجماع‘‘تو بڑی بات ہے۔نواب صاحب تو فرماتے ہیں کہ بیس رکعت اور اس کے ادا کرنے کی یہ کیفیت جس پر آج عام مسلمانوں کا عمل ہے کسی بھی معتبر دلیل سے ثابت نہیں ہے،لیکن اس کے با وجود نواب صاحب بیس یا اس سے کم و بیش رکعتوں کو ناجائز نہیں سمجھتے۔فرماتے ہیں: نعم تجوز صلوٰۃ التراویح وعدد الرکعات فیھا بزیادۃ و نقصان لکن لا یقال انھا سنۃ علی ھذہ الحالۃ الطارئۃ بل السنۃ الصحیحۃ المخکمۃ ما ورد فی حدیث عائشۃ المذکور المروی فی الصحیح انتھی(عون الباری مع نیل ص ۳۷۶ ج ۴)۔ یعنی ہاں تراویح کی نماز پڑھنا بے شک صحیح ہے اور اس کی رکعتوں کی تعداد بھی کم و بیش جائز ہے،لیکن یہ نہ کہنا چاہیئے کہ اسی کیفیت و تعداد کے ساتھ ادا کرنا سنت ہے جو(عہد نبوی)کے بعد رائج ہوئی ہے۔سنت صحیحہ ثابتہ تو وہی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔(یعنی گیارہ رکعت مع وتر)۔ بتائیے ان صراحتوں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی دیانت دار انسان یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ نواب صاحب تو بلا رد و انکار یہ تسلیم کرے ہیں کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح پر اجتماع ہو گیا ہے؟ہم تو حیران ہیں کہ ایسے’’ثقہ‘‘لوگوں کی اس اندھیر اور دھاندلی پر اظہار افسوس بھی کریں تو کن لفظوں