کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 375
نہیں اختیار کیا ہے بلکہ اس کے بعد دوسرے علماء کے ایسے اقوال اس سلسلے میں ذکر کیے ہیں جن سے بیس پر اجماع اور اسی پر عمل کے استقرار کے دعووں کا بطلان واضح ہو جاتاہے۔چنانچہ قسطلانی کا یہ کلام نقل کرنے کے فوراً ہی بعدنواب صاحب نے فتح الباری کا ایک طویل اقتباس پیش کیا ہے جس میں حافظ نے پہلے تو یہ بتایا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کا جو نظم قائم کیا تھا اس کی تعدادکے متعلق روایتوں میں اختلاف ہے۔گیارہ اور تیرہ اور بیس اکیس یہ سب تعداد کے منقول ہے(ان روابتوں میں ترجیح وتطبیق کی بابت ہم پہلے بخث کر چکے ہیں)اس کے بعد حافظ نے وہ آثار ذکر کیے ہیں جن سے بلاواسلامیہ میں بیس کے علاوہ بھی عمل کا ثبوت ملتا ہے۔مثلاً اسود بن یزیدنخعی(جنہوں نے با قرارمولانا مئوی حضرت عمر کا زمانہ بلاشبہ پایا ہے)وتر کے علاوہ چالیس رکعتیں پڑھتے تھے۔نافع(تابعی)کا بیان ہے کہ میں نے لوگوں کو(یعنی صحابہ وتابعین کو)صرف انتالیس رکعتیں وتر کے سوا پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔زراہ بن اوفی لوگوں کو بصرہ میں چونتیس رکعتیں وتر کے علاوہ پڑھاتے تھے۔سعید بن جیر(تابعی)چوبیس رکعتیں پڑھتے تھے اور ابو مجلز(تابعی)سولہ رکعتیں پڑھاتے تھے۔‘‘(عون الباری مع نیل ص۳۷۲/۴) غور کیجئے اگر نواب صاحب کو یہ تسلیم ہے کہ عہد فاروقی میں خاص بیس ہی رکعت پڑ اجماع ہوگیا ہے اور اس کے بعد مسلمان خاص اسی عدد کے پابند رہے اور اس کے بعد مسلمان خاص اسی عدد کے پابند رہے اور اسی تعداد پر ان کا عمل ٹھہر گیا ہے تو پھر ان آثار کو پیش کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ نواب صاحب نے اس کے بعد سبل السلام شرح بلوغ المرام کے حوالہ سے علامہ محمد بن اسماعیل الامیر الیمنی کی یہ بات بھی نقل کر دی ہے کہ خاص بیس رکعت کی پابندی اور اس کے ادا کرنے کی مخصوص کیفیت کا