کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 374
قسطلانی کی کلام میں تیسری بات قابل غور یہ ہے کہ انہوں نے’’کالاجماع ‘‘کو وسعت دیکر زیادہ سے زیادہ آ پ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہ اس سے’’اکثر’’مراد ہیں لیکن اکثر کا قول نہ اجماع ہے اور نہ حجت۔علامہ ابن الہام کی التحریر اور اس کی شرح لابن امیر الحاج ص۹۴/۳ میں ہے: (والمختار لیس)اجماع الا کثر(اجماعا)اصلا فلا یکون حجۃ قطعیۃ ولا ظنیۃ لا نہ لیس بکتاب ولاسنۃ ولا جماع ولا قیاس بل ولا دلیل من الا دلۃ المعتبرۃ من الائمۃ انتھی یعنی’’مختار مذہب یہ ہے کہ اکثر کا اجماع قطعاً اجماع نہیں ہی۔لہذا یہ یہ حجت قطعیہ ہے اور نہ حجت ظنیہ۔اس لیے کہ(اولہ اربع میں سے کوئی دلیل نہیں ہے)نہ یہ کتاب اللہ ہے اور نہ سنت ہے اور نہ اجماع ہے اور نہ قیاس ‘بلکہ دلیلوں میں سے بھی یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔جو(حنفیہ کے علاوہ دوسرے)ائمہ کے نزدیک معتبر ہیں‘‘۔مولانا انور شاہ صاحب فرماتے ہیں: لا حجۃ فی الشیوع والکثرۃ بعد عہد النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فان العبرۃ بما کان فی عھدصاحب النبوۃ(فیض الباری ج۳ ص۴۴۸) ’’یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی عمل کی اشاعت کالور کثرت کوئی شرعی حجت نہیں ہے بلکہ اعتبار اس عمل کا ہوگا جو عہد نبوی میں موجود تھا‘‘۔ الغرض علامہ قسطلانی کی یہ بات اجماع کے دعوے کا خود ہی ابطلال کرہی ہے‘تو نواب صاحب یا کسی دوسرے اہل حدیث کو اس کا جواب دینے کی کیا ضرورت ہے؟یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ آپ اسکواپنے دعوے کی تائیدمیں سمجھ رہے ہیں۔ ثانیاً نواب صاحب نے قسطلانی کا یہ کلام نقل کرنے کی بعد’’سکوت