کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 373
یہ شبہ کہ نواب صاحب نے اس کو نقل کر کے سکوت کیوں اختیار کیا ہے؟اس پر کوئی اعتراض کیوں نہیں کیا؟تو یہ شبہ بھی دراصل اسی بنیاد پر قائم ہے کہ عون الباری مین یہ پوری بحث یا تو غور سے پڑھی نہیں گئی ہے اور یا محض نا واقف عوام کو دھوکہ دینے کیلیے تجاہل سے کام لیا جا رہاہے۔ اولاً تو علامہ قسطلانی نے یہ بات جس انداز میں کہی ہے اس کے لحاظ سے اس کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔اس لیے کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں خاص بیس رکعات پر اجماع ہو جانے کا دعویٰ ہی نہیں کیا ہے۔ان کے الفاظ پر غو ر کیجیے۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے’’عدّوا‘‘کہا ہے(لوگوں نے شمار کیا ہے)یعنی لوگوں کا شمار اور زعم ہے۔کوئی تحقیقی امر نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ’’ما وقع فی زمن عمر‘‘کہا ہے(یعنی حضرت عمرؓ کے زمانے میں جس جس عددپر عمل ہوا ہے ‘بیس کی تخصیص نہیں ہے)اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں قسطلانی ہی کے بیان کی مطابق گیارہ اور چھتیس ان سب پر عمل ہوا ہے’لہذا یہ سب’’ما وقع فی زمن عمر ‘‘میں داخل ہیں اگر یہ کہیے کہ قسطلانی نے گیارہ اور بیس کی بابت امام بیہقی کی یہ تطبیق ذکر کی ہے کہ گیارہ پر عمل پہلے ہوا ہے’اس کی بعد بیس پر عمل ہواہے تو اس کا جواب یہ ہی کہ قسطلانی ہی نے اس کے بعد ابن حبیب مالکی کایہ کلام بھی نقل کیاہے کہ بیس کے بعد چھتیس پر عمل ہوا ومضی الا مر علیٰ ذالک(اور اسی چھتیس پر(بیس پر نہیں)عمل قائم رہ گیا)اس کے معنی یہ ہوئے کہ آخری عمل چھتیس کا ہے بیس کا نہیں۔قسطلانی نے ابن حبیب کی اس بات پر کوئی اعتر اض اور ردّ نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تائید میں دوسرے آثار پیش کیے ہیں۔لہذا’’ما وقع فی زمن عمر ‘‘کو یا تو اپنے عموم پر باقی رکھیئے یا اگر تخصیص کیجیے تو چھتیس کی بیس کی نہیں۔