کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 370
ایک تریحہ اکیلے اپنے گھر پڑھتے ہوں۔۔۔۔۔۔(رکعات ص۱ب۹) اگر اس روایت کے الفاظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ابو مجلز سولہ ہی رکعتوں کے قائل تھے تو پھر ان روایتوں سے بھی جن میں بیس رکعتوں کا ذکر ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں صحابی یا فلاں تابعی بیس ہی کے قائل تھے۔اس لیے کہ جس طرح ان روایتوں میں کسی صحابی یا تابعی وغیرہ کے متعلق مذکور ہے کہ وہ بیس رکعت پڑھتے یا پڑھاتے تھے’اسی طرح یہاں بھی مصرح ہے کہ ابو مجلز چار تر ویحے(سولہ رکعتیں)لوگوں کو پڑھاتے تھے اور اس سے کم یا زیادہ پڑھنا ان سے یا انکے ساتھ پڑھنے والی جماعت سے کہیں بھی ثابت نہیں ہے‘تو بیس والی روایتوں کے الفاظ سے آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ فلاں فلاں حضرات بیس ہی کے قائل تھے؟کیا ان روایتو ں کی بابت اس قسم کی فرضی اور احتراعی احتمالات اور بالکل بے دلیل اور بے ثبوت قیاسات پیدا کرکے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ممکن ہے وہ یوں کرتے رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔یا یوں کرتے رہے ہوں؟ محض اپنے مذہب کی پاس اور عصبیت کی خاطر اگر اس قسم کی زبر دستی کی تاویلو ں کا اگر اس قسم کی زبردستی کی تاویلوں کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر کونسی بات ہے جو اپنی جگہ پر سیدھی قائم رہ سکے گی؟ مولانا آپ لوگوں کی ایسی ہی تاویلوں نے قادیانی’’علم کلام ‘‘کے لیے مواد مہیا کیا ہے اور اگر سچ پوچیے تو ہمیں آپ کی ایسی تاویلوں پر کوئی تعجب بھی نہ کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ تو پھر بھی کسی امتی کے قول یا فعل کے متعلق ہے۔آپ کے ایک مشہور پیشوا اور مسلم امام ابو الحسن عبیداللہ الکرخی نے قرآن کی آیا ت اور احادیث کی تسبت یہ قاعدہ صاف صاف بیان کیاہے کہ: ’’ہر وہ آیت جو اس طریقہ کے مخالف ہو جس پر ہمارے اصحاب ہیں