کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 366
ثبوت نہیں کہا ہے۔زیادہ سے زیادہ جو جرح کی ہے وہ یہ کہ یہ روایت غیر مشہور ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ غیر مشہور ہونے سے اس کا بے اصل تو کیا ضعیف ہونا بھی لازم نہیں آتا۔کتنی ہی اخبار احاد ہیں جو غیر مشہور ہیں،لیکن پھر بھی وہ صحیح اور قابل حجت وقابل عمل ہیں۔ ابن حبیب مالکیؒ کا یہ بیان پہلے باحوالہ گزر چکاہے کہ تراویح اولا گیارہ ہی رکعت تھی،مگر لوگوں نے تطویل قرا ت میں تخفیف کرکے اس کی عوض میں رکعات کی تعداد بڑھاکر بیس کر دیا۔اس کے بعدیہ بھی متروک ہوگیا اور اس کے بجائے رکعات کی تعداد چھتیس کر دی گئی اور اسی پر عمل جاری ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ابن حبیب کے اس بیان کو قاضی خاں وغیرہ کی پیش کردہ روایت کے ساتھ ملا کر غور کیجیے تو نتیجہ صاف ظاہر ہو جاتاہے کہ بیس رکعت پر’’اجماع‘‘تو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے زمانے میں ختم ہو گیا تھا اور اس کے بجائے چھتیس پر عمل جاری ہو گیا تھا۔پھر عہد فاروقی میں بیس پر اجماع اور اسی پر استقرار عمل کی دعووں کی بطلان میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔حضرت نافع کے متعلق مولانا مئوی ہی لکھتے ہیں: ’’نافع حضرت ابن عمرؓ کے مولیٰ اور حضرت عائشہؓ اور حضرت ابو ہریرہؓاور حضرت ابورافعؓ کی شاگردتھے۔ان کا بیان ہے کہ میں نے تو لوگوں کوچھتیس تراویح اورتین وتر پڑھتے ہوئے دیکھا اور پایا ہے۔‘‘(رکعات ص ۲) نافع نے خودتو حضرت عمرؓکا زمانہ نہیں پایا ہے۔لیکن جن صحابہ کی یہ شاگرد اور صحبت یافتہ ہیں انہوں نے تو حضرت عمرؓ کا زمانہ پایا ہے؟ظاہر ہے کہ نافع نے جن لوگوں کو چھتیس رکعتیں پڑھتے دیکھا اور پایا ہے۔ان میں یہ صحابہ بھی